سرینگر// لشکرِ طیبہ کے نامور کمانڈر بشیر لشکری کے ایک اینکاونٹر میں مارے جانے کی خبر پھیلنے کے ساتھ ہی ہزاروں لوگوں نے جنوبی کشمیر کے کوکرناگ علاقہ میں اُنکے آبائی گاوں صوف شالی کی طرف مارچ شروع کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق لشکری عرف ابو عکاسہ کے جان بحق ہونے کی خبر پھیلتے ہی اسلام آباد ضلع کے کئی علاقوں سے لوگوں نے کہیں پیدل اور کہیں گاڑیوں میں صوف شالی کی طرف پہنچنا شروع کیا ہے جہاں عکاسہ کی تدفین سے قبل ایک بڑا اجتماع ہونے کا امکان ہے۔
محصور جنگجووں کو فرار کرنے کے لئے مقامی لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے تھے تاہم فورسز نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ایک خاتون سمیت دو کو جاں بحق اور دیگر درجنوں کو زخمی کردیا ہے۔
بشیر لشکری کو پولس اور دیگر سرکاری فورسز نے دیالگام کے برینٹی بٹہ پورہ کے ایک گھر میں گھیر لیا تھا اور کئی گھنٹوں کی جھڑپ کے بعد وہ اپنے ایک ساتھی سمیت مارے گئے ہیں۔ محصور جنگجووں کو فرار کرنے کے لئے مقامی لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے تھے تاہم فورسز نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ایک خاتون سمیت دو کو جاں بحق اور دیگر درجنوں کو زخمی کردیا ہے۔ انتظامیہ نے کشیدہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد میں انٹرنیٹ کی سہولت بند کردی ہے جسکی وجہ سے خبروں کی ترسیل میں دقتیں آرہی ہیں تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ دیالگام اور کوکرناگ کے علاوہ دیگر کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔
پولس چیف ایس پی وید نے لشکری کے مارے جانے کو ایک بڑی کامیابی بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے لشکرِ طیبہ کو ایک بڑا دھچکہ پہنچا ہے۔ مسٹر وید اس سے پہلے ہی لشکری کے ایس ایچ او فیروز ڈار اور دیگر پانچ پولس اہلکاروں کی ہلاکت میں ملوث بتاچکے ہیں۔ یاد رہے کہ تھانہ پولس اچھہ بل کے ایس ایچ او فیروز ڈار کی گاڑی پر جنگجووں نے گھات لگا کر حملہ کرکے ڈار سمیت چھہ اہلکاروں کو موقعہ پر ہی ہلاک کردیا تھا جسکے کچھ ہی گھنٹوں کے بد ایس پی وید نے کہا تھا کہ اس حملے میں بشیر لشکری اور اُنکے ساتھ ملوث رہے ہیں۔
بشیر لشکری وادی کشمیر میں سرگرم سب سے پُرانے جنگجووں میں شمار تھے۔ ذرائع کے مطابق لشکری کو برسوں پہلے پکڑ لیا گیا تھا تاہم ایک عرصہ جیل میں کاٹنے کے بعد وہ چھوٹ کے گھر بیٹھے تھے تاہم پولس اور دیگر فورسز کی جانب سے بار بار بلائے جانے کے بعد وہ دوبارہ جنگجو بن گئے اور اب سال بھر سے لشکرِ طیبہ کے کمانڈر کے بطور خاصے سرگرم اور مشہور تھے۔