سرینگر// نئے ٹیکس قانون جی ایس ٹی کے ریاست میں مجوزہ نفاذ کو لیکر جاری تنازعے کے بیچ کشمیر کی سیول سوسائٹی نے اس قانون کے نفاذ کی صورت میں” سیول نافرمانی کی تحریک“شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔سیول سوسائٹی کا اندازہ ہے کہ جی ایس ٹی کا نفاذ ریاست کی خصوصی پوزیشن پر ایک کاری ضرب ہوگی جسے کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے۔
ایک طرف جہاں کل ریاستی سرکار نے جی ایس ٹی سے متلق مشاورت کے لئے کُل جماتی میٹنگ کا انعقاد کیا تھا،تاجر تنظیموں اور سیول سوسائٹی گروپوں کی جانب سے بھی علیٰحدہ سے ایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں اس متنازعہ قانون کے کئی گوشوں پر مفصل بحث کی گئی اور محسوس کیا گیا کہ یہ قانون نافذ ہوا تو ریاست کی خصوصی پوزیشن بہت متاثر ہو جائے گی۔چناچہ سابق ہائی کورٹ جج حسنین مسعودی نے کہا کہ جی ایس ٹی کا نفاذ گزشتہ چالیس سال کے دوران ریاست کی اٹانومی پر اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہوگا۔اُنہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی کے نفاذ کی صورت میں ریاست ٹیکس قوانین بنانے کا اختیار کھو دے گی جبکہ بھارتی پارلیمنٹ جموں کشمیر کے لئے با الواسطہ ٹیکس کے قانون بنائے گی اور جی ایس ٹی کونسل ٹیکس کے ریٹ مقرر کرے گا۔
جی ایس ٹی کا نفاذ گزشتہ چالیس سال کے دوران ریاست کی اٹانومی پر اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہوگا۔
واضح رہے کہ بھارت میں یکم جولائی سے ٹیکس کا نیا قانون جی ایس ٹی یا گُڈس اینڈ سروسز ٹیکس نافذ ہونے جارہا ہے تاہم جموں کشمیر میں اس قانون کے نفاذ کو لیکر عوامی سطح پر زبردست مزاحمت کی جا رہی ہے اگرچہ محبوبہ مفتی کی قیادت والی سرکار اس قانون کے نفاذ کے لئے اُتاولی ہورہی ہے۔ریاست میں اس قانون کے نفاذ پر اعتراض جتانے والوں کا کہنا ہے کہ اس سے ریاست کی مالی خود مختاری پر آنچ آئے گی اور ریاست کی خصوصی پوزیشن پر بھی حرف آئے گا۔
کشمیر سنٹر فار سوشل اینڈ ڈیولوپمنٹ(کے سی ایس ڈی ایس) کی جانب سے بلائی گئی گول میز کانفرنس میں جسٹس حسینین مسعودی کے علاوہ پروفیسر گُل وانی،پروفیسر نسار علی،چارٹرڈ اکاونٹنٹ عبدالمجید زرگر،کالم نویس جاوید اقبال،محکمہ لائبریز کے سابق افسر زیڈ جی محمد،سید نیاز شاہ،جان محمد کول،شوکت چودھری ،آر ٹی آئی مومنٹ کے نمائندگان اورمختلف سیاسی تنظیموں کے نمائندگان شامل رہے جنہوں نے جی ایس ٹی کے نفاذ کی صورت میں ریاست کی سیاسی و اقتصادی حیثیت پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کی وضاحت و تشریح کی۔
جسٹس مسعودی نے مزید کہا”ہم اپنے اختیارات سے دستبردار ہو رہے ہیں،وزیرِ خزانہ کو ہمیں بتانا چاہیئے کہ جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد ہم کس طرح ٹیکس کے ریٹ مقرر کرپائیں گے اور ضروری استثنیٰ کے بارے میں کس طرح فیصلہ لے پائیں گے“۔اُنہوں نے کہا کہ آئین کی 101ویں ترمیم کا جموں کشمیر میں تب تک اطلاق نہیں ہو سکتا ہے کہ جب تک نہ یہاں کی سرکار اسے منظوری دے۔
تاجر تنظیم فیڈریشن چیمبر آف انڈسٹریز کشمیر(ایف سی آئی کے)کے سابق صدر شکیل قلندر نے کہا کہ جی ایس ٹی کا نفاذ ریاست میں غیر منظم سیکٹر کے لئے ایک بڑا دھچکہ ثابت ہوگا۔اُنہوں نے کہا کہ اس سے چھوٹی صنعتیں بھی متاثر ہونگی کہ جنہیں ابھی ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہونے کے علاوہ دیگر مراعات ملتی آرہی ہیں۔اُنہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ جی ایس ٹی کا نفاذ کشمیر میں صنعتوں کے خلاف ایک سازش اور یہاں کی اقتصادیات کا گلا گھونٹنے کا ایک اقدام ہے۔
سابق چیف ٹیکس کمشنر غلام رسول صوفی نے حزب اختلاف نیشنل کانفرنس کو اہم رول ادا کرنے کے لئے کہتے ہوئے بتایا کہ جی ایس ٹی کا نفاذ یہاں کی اقتصادی اور سیاسی خود مختاری پر ایک بڑی چوٹ ہے جسے بچا لیا جانا چاہیئے۔اُنہوں نے نیشنل کانفرنس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اسے ایک دوستانہ اپوزیشن کی بجائے سرگرم ہوکر ریاست کی خصوصی پوزیشن کا دفا کرنا چاہیئے۔اس تنازے پر وسیع بحث و مباحثے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سابق بیوروکریٹ شفیع پنڈت نے کہا کہ پورا معاملہ وامی سطح پر کھول کر رکھا جانا چاہیئے اور اس پر کھلی بحث ہونے کے بعد ہی کوئی فیصلہ لیا جانا چاہیئے۔اُنہوں نے کہا کہ وزیرِ خزانہ نے یہ کہکر جی ایس ٹی کو عوامی سطح پر زیرِ بحث لانے سے انکار کیا ہے کہ قوانین پر مباحثہ قانون سازیہ کا کام ہے لیکن جنوبی افریقہ جیسے ممالک میں تو قوانین بنانے کے لئے دیہی سطح پر بھی مباحثے کرائے جاتے ہیں۔
شُرکاءِ کانفرنس اس بات پر متفق تھے کہ اگر حکومت نے جی ایس ٹی کا نفاذ عمل میں لایا تو ریاست میں سیول نافرمانی کی تحریک چھیڑ دی جائے گی۔
کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر یسف تاریگامی نے بھی جی ایس ٹی کے نفاذ کی مخالفت میں تقریر کی اور کہا کہ اس سے وہ بنیادیں بھی ہل جائیں گی کہ جو ابھی تک کسی نہ کسی طرح اور کسی نہ کسی حد تک محفوظ ہیں۔وامی اتحاد پارٹی کے سربراہ اور ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے بھی متنازعہ قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی سرکار جی ایس ٹی کے نفاذ کی صورت میں ریاست کے سبھی اختیارات کو سرنڈر کرنے جا رہی ہے۔اُنہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ نئی دلی جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت سے منسلک ہر چیز چھیننے کی کوشش میں ہے۔اُنہوں نے کہا”ماضی میںہم نے خود غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے اپنی سیاسی خود مختاری کھو دی ہے لیکن ہم اپنے آئینی اور سیاسی مسائل کو لیکر مزید غیر ذمہ داری کی رِسک نہیں اُٹھا سکتے ہیں اور آزادی کے لئے کوشاں ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں ان سبھی معاملات کا خیال رکھنا چاہیئے“۔
تاجر لیڈراور ایف سی آئی کے کے سینئر نائبِ صدر جاوید احمد بٹ نے کہا ”ہم گولیوں کا سامنا کرنے کو تیار ہیں مگر ریاست کی خود مختاری کو کھو دینے پر نہیں، ہمیں دفعہ370کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہونے پر فخر ہوگا“۔شُرکاءِ کانفرنس اس بات پر متفق تھے کہ اگر حکومت نے جی ایس ٹی کا نفاذ عمل میں لایا تو ریاست میں سیول نافرمانی کی تحریک چھیڑ دی جائے گی۔