کھڈونی/شوپیاں/پانپور// آرونی کے معرکہ میں مارے جاچکے لشکر کمانڈر جنید متو اور اُنکے دو ساتھیوں،ناصر وانی آف شوپیاں اور عادل میر آف پانپور،کے جلوس ہائے جنازہ میں سوگواروں کا سیلاب اُمڈ آیا جبکہ جگہ کم پڑ جانے پر تینوں جنگجووں کی کئی کئی بار نمازِ جنازہ پڑھنی پڑی اور ہر بار ہزاروں لوگ شریک رہے۔اس دوران مسلح جنگجووں نے جلوسوں میں نمودار ہوکر اپنے کمانڈر اور ساتھیوں کو ہوا میں گولی چلا کر فوجی طرز کی سلامی دی جبکہ ان جنگجووں کی ایک جھلک پانے،اُنسے معانقہ یا مصافحہ کرنے کے لئے لوگ ایکدوسرے پر گر پڑے۔
یہاں اُسوقت منظر اور بھی جذباتہ ہوگیا کہ جب اچانک ہی کئی مسلح جنگجو نمودار ہوئے اور وہ اپنے کمانڈر کی نعش کے بوسے لینے لگے۔اس موقعہ پر موجود لوگ ان جنگجووں کی ایک جھلک دیکھنے اور انسے معانقہ یا مصافحہ کرنے کے لئے ایکدوسرے پر گر پڑنے لگے تاہم ان جنگجووں نے ہوا میں کئی راونڈ فائر کرکے اپنے کمانڈر کو سلامی دی اور نو دو گیارہ ہوگئے۔
جمعہ کی صبح کو آرونی کے ملک محلہ کے ایک گھر میں گھیر لئے جانے کے بعد متو اور اُنکے ساتھیوں کو دن بھر جاری رہنے والی طویل جھڑپ میں تب خاموش کردیا گیا تھا کہ جب فورسز نے کم از کم تین مکانوں کو زمین بوس کرکے ملبے کا ڈھیر بنادیا۔بعدازاں بلڈوزر کا استعمال کرکے سرکاری فورسز نے ملبہ کھنگال لیا اور نصف شب کے قریب تینوں جنگکووں کی نعشیں حاصؒ کرکے اُنہیں تدفین کے لئے اُنکے لواحقین کے سپرد کردیا گیا۔اس معرکہ کے دوران ہزاروں لوگوں نے محصور جنگجووں کا بچاو کرنے کی ناکام کوشش کی تھی تاہم سرکاری فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کرکے ان میں سے دو کو جاں بحق اور قریب تیس کو زخمی کردیا تھا۔گوکہ مشترکہ مزاحمتی قیادت نے احتجاجی طور کشمیر بند کی کال دی ہوئی تھی اور کئی علاقوں میں سرکاری انتظامیہ نے کرفیو نافذ کردیا تھا تاہم اسکے باوجود بھی صبح سویرے سے ہی سوگواروں کے دریا جیسے تینوں جنگجووں کے آبائی علاقوں کی جانب بہنے لگے۔جنید متو کے یہاں آناََ فاناََ ہزاروں لوگ،ایک اندازے کے مطابق چالیس ہزار سے زیادہ،جمع ہوگئے تھے اور یہاں انتہائی جذباتی مناظر کی نمائش ہورہی تھی۔چناچہ متو کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے لوگ بے تاب ہورہے تھے اور بزردست نعرہ بازی کے دوران کئی لوگوں کو آنسو بہاتے دیکھا جاسکتا تھا۔لوگوں کی بہتات کو یہاں کہیں بھی آسانی سے سمویا نہیں جا پارہا تھا اور اسلئے ایک ایک کرکے کم از کم دس بار نمازِ جنازہ پڑھی گئی اور ہر بار ہزاروں لوگوں نے اس میں شرکت کی۔یہاں اُسوقت منظر اور بھی جذباتہ ہوگیا کہ جب اچانک ہی کئی مسلح جنگجو نمودار ہوئے اور وہ اپنے کمانڈر کی نعش کے بوسے لینے لگے۔اس موقعہ پر موجود لوگ ان جنگجووں کی ایک جھلک دیکھنے اور انسے معانقہ یا مصافحہ کرنے کے لئے ایکدوسرے پر گر پڑنے لگے تاہم ان جنگجووں نے ہوا میں کئی راونڈ فائر کرکے اپنے کمانڈر کو سلامی دی اور نو دو گیارہ ہوگئے۔
چناچہ متو کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے لوگ بے تاب ہورہے تھے اور بزردست نعرہ بازی کے دوران کئی لوگوں کو آنسو بہاتے دیکھا جاسکتا تھا۔لوگوں کی بہتات کو یہاں کہیں بھی آسانی سے سمویا نہیں جا پارہا تھا اور اسلئے ایک ایک کرکے کم از کم دس بار نمازِ جنازہ پڑھی گئی
جنید کے ساتھی نصیر وانی کے یہاں ہف شوپیاں میں بھی سوگواروں کا ایک سمندر جمع تھا اور یہاں بھی ایک ساتھ سبھی لوگ نمازِ جنازہ پڑھنے کے لئے جگہ ڈھونڈنے میں ناکام رہے اور باہمہ مشاورت کے بعد ایک کے بعد ایک سات مرتبہ نمازِ جنازہ کا اہتمام کرکے سبھی لوگوں کو شرکت کا موقعہ دیا گیا۔نصیر کو اسلام ، آزادی اور مسلح جدوجہد کے حق میں زبردست نعرہ بازی کے بیچ اشکبار آنکھوں کے ساتھ دفن کیا گیا۔یہاں بھی کئی مسلح جنگجووں نے ہوا میں گولی چلا کر نصیر کو سلامی دی۔چناچہ جب ان جنگجووں نے اپنے ساتھی کی میت کے ساتھ لپٹ کر نعرہ بازہ کی تو لوگوں میں جنون کی حد تک جوش دیکھا گیا اور اسکے بعد یہ مسلح جنگجو اچانک ہی بھیڑ میں کہیں غائب ہوکر چلے گئے۔یہاں بزرگ علیٰحدگی پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی نے سوگواروں سے فون کے ذرئعہ خطاب کیا اور اُنسے ”شہداءکی قربانیوں کی حفاظت کرنے “کی تلقین کی۔
تیسرے جنگجو عادل میر کے فرستہ بل پانپور نامی گاوں کا منظر بھی کچھ الگ نہیں تھا کہ یہاں بھی ہزاروں لوگ جمع تھے جنہوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ عادل کی نمازِ جنازہ پڑھی۔عادل کی نعش کو قریب ساڑھے گیارہ بجے یہاں پہنچایا گیا تو پہلے سے جمع ہزاروں لوگوں نے انتہائی جذباتی ہوکر نعرہ بازی کی جبکہ اُنکے کئی دوستوں کو بلک بلک کر روتے دیکھا گیا۔دلچسپ ہے کہ یہاں بھی مسلح جنگجووں کا ایک گروہ نمودار ہوا جنہوں نے اپنے ساتھی کو سلامی دینے کے لئے کئی بار کئی کئی گولیاں چلائیں۔یہ پہلی بار ہے کہ جب ایک ساتھ تین مختلف علاقوں میں جنگجووں کی تدفین ہورہی ہو اور انکے ساتھیوں نے تینوں جگہ پہنچ کر اُنہیں یوں گولی چلا کر سلامی دی ہو۔