پلوامہ // جنوبی کشمیر کے پلوامہ قصبہ میں کل کالج اور اسکولوں کے طلباءنے ایک بار پھر احتجاجی مظاہرے کئے جبکہ پولس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے گولے داغنے کے علاوہ لاٹھی چارج اور دیگر کئی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔
پلوامہ کے پولس تھانہ پر منگل کی رات ہوئے گرنیڈ حملے کے بعد ہی قصبہ میں حالات کشیدہ ہوگئے تھے۔لوگوں کا الزام تھا کہ دھماکے کے فوری بعد پولس اور فورسز اہلکاروں نے عام لوگوں کو حراساں کیا جسکے خلاف لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور یہ سلسلہ قریب نصف شب تک جاری رہا۔چنانچہ پولیس نے رات دیر گئے احتجاج کررہے لوگوں کو منتشر کرنے کےلئے ٹیر گیس کے گولے داغے جس کے جواب میں مشتعل مظاہرین نے پولیس پر سنگباری شروع کی۔طرفین کے مابین پر تشدد جھڑپوں کا سلسلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہااور حالات کافی دیر تک پر تناﺅ رہے۔
پلوامہ کے پولس تھانہ پر منگل کی رات ہوئے گرنیڈ حملے کے بعد ہی قصبہ میں حالات کشیدہ ہوگئے تھے۔لوگوں کا الزام تھا کہ دھماکے کے فوری بعد پولس اور فورسز اہلکاروں نے عام لوگوں کو حراساں کیا جسکے خلاف لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور یہ سلسلہ قریب نصف شب تک جاری رہا۔
بدھ کی صبح مہجور میموریل ہائر اسکینڈری اسکول سے وابستہ طلبہ نے گزشتہ روز شوپیان میں طلبہ کے خلاف طاقت کے بے تحاشااستعمال کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے۔طلباءنے جلوس کی صورت میں مارچ کرکے پہلے راجپورہ چوک میں دھرنا دیکر شوپیان کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور بعد میں پولیس اسٹیشن پلوامہ کو کئی اطراف سے گھیرے میں لیکر اس پر شدید پتھراﺅ کیا۔اس واقعہ کے فوری بعد دیگر کئی تعلیمی اداروں کے طلباءنے بھی احتجاجی مظاہرے شروع کئے اور قصبے میں حالات کشیدہ ہوگئے۔اس صورتحال کی وجہ سے سرینگر پلوامہ روڑ پر گاڑیوں کی آمدورفت مسدود ہوگئی جس کے پیش نظر پولیس نے احتجاجی طلبہ کو تتر بتر کرنے کےلئے ان پر بے تحاشا لاٹھیاں برسائیں اور اس طرح طرفین کے مابین باضابطہ جھڑپوں کا آغاز ہوا۔ جھڑپیں شروع ہوتے ہی قصبے میں اتھل پتھل کے بیچ بیشتر بازاروں کی دکانیں کچھ دیر کےلئے بند ہوگئیں اور اس دوران راہگیروں کے ساتھ ساتھ چھاپڑی فروشوںمیں بھی افراتفری پھیل گئی۔طلبہ اور پولیس کے مابین جھڑپوں میں جب شدت پیدا ہوئی تو احتجاجی طلباءکو منتشر کرنے کےلئے اشک آور گیس کے گولے داغے گئے ۔آکری اطلاعات ملنے تک قصبے میں صورتحال کشیدہ بتائی جاری تھی تاہم کسی کے شدید زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔