سرینگر//(جاوید احمد)جموں کشمیر میں لشکرِ طیبہ کے چیف اور سرکار کو مطلوب ترین جنگجو کمانڈر ابو دوجانہ نے ایک بار پھر محاصرے میں آنے کے باوجود سرکاری فورسز کو چکمہ دیا ہے اور دو ساتھیوں سمیت فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ابو دوجانہ بدھ کو جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع میں ہکڈی پورہ نامی گاوں میں پھنس گئے تھے جہاں سرکاری فورسز کے ساتھ کچھ دیر لڑتے رہنے کے بعد وہ فرار ہو گئے ہیں۔فوج اور دیگر سرکاری فورسز نے رات بھر گاوں کا محاصرہ کئے رہنے کے بعد بدھ کی صبح کو محاصرہ ہٹا دیا تھا کہ جب لشکر چیف اپنے کم از کم دو ساتھیوں سمیت مقامی لوگوں کی مدد سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
لشکرِ طیبہ کے معروف کمانڈر ابو قاسم کے جانشین ابو دوجانہ گزشتہ پانچ سال سے وادی میں سرگرم بتائے جاتے ہیں اور وہ سرکار کو مطلوب ترین جنگجو کمانڈروں میں سرِ فہرست ہیں
فوج کی 55راشٹریہ رائفلز(آر آر)،جموں کشمیر پولس کے جنگجو مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ(ایس او جی)اور سی آر پی ایف کی بڑی تعداد نے گاوں میں جنگجووں کی موجودگی سے متعلق اطلاع ملنے پر منگل کی شام کو مشترکہ طور یہاں کا محاصرہ کر لیا تھا۔چناچہ گاوں کا محاصرہ ہوتے ہی سرکاری فورسز اور جنگجووں کا آمنا سامنا ہوگیا جسکے بعد جانبین میں فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا۔ذرائع کے مطابق اندھیرے کی وجہ سے فوجی کارروائی کو روک دیا گیا تھا اگرچہ پورے علاقے کو زبردست محاصرے میں لیکر جنگجووں کے فرار کے سبھی راستے بند کردئے گئے تھے۔تاہم اس صورتحال کی خبر ملتے ہی آس پڑوس کے ہزاروں لوگ جمع ہوکر احتجاجی مظاہرے کرنے لگے اور بعدازاں اُنہوں نے سرکاری فورسز کو سنگبازی میں اُلجھا کر محصور جنگجووں کو فرار کا راستہ دیا۔چناچہ رات بھر کے انتظار کے بعد صبح سویرے سرکاری فورسز نے آپریشن بحال کرنا چاہا تاہم محصور جنگجو فرار ہوگئے تھے۔ذرائع نے سرکاری اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ محصور جنگجووں کی تعداد دو یا تین تھی اور امکان ہے کہ اُن میں لشکر طیبہ کے جموں کشمیر کے چیف ابو دوجانہ بھی شامل تھے۔ان ذرائع نے بقیہ دو جنگجووں کی شناخت عارف اور ماجد کے بطور کی ہے جو پاکستانی جنگجو کمانڈرابودوجانہ کے برعکس مقامی شہری ہیں۔
اس صورتحال کی خبر ملتے ہی آس پڑوس کے ہزاروں لوگ جمع ہوکر احتجاجی مظاہرے کرنے لگے اور بعدازاں اُنہوں نے سرکاری فورسز کو سنگبازی میں اُلجھا کر محصور جنگجووں کو فرار کا راستہ دیا۔
سرکاری ذرائع نے جھڑپ شروع ہونے پر علاقے میں احتجاجی مطاہرے اور سنگبازی کے واقعات کی تصدیق تو کی ہے تاہم یہ ماننے سے انکار کیا ہے کہ یہ سب جنگجووں کے فرار ہونے کی وجہ بنی ہے۔ان ذرائع نے بتایا کہ سنگبازی کے معمولی واقعات ”سکیورٹی رِنگ“سے باہر پیش آئے ہیں اور ان واقعات نے جنگجووں کی کوئی مدد نہیں کی ہے بلکہ وہ اندھیرے کا فائدہ اُٹھا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
لشکرِ طیبہ کے معروف کمانڈر ابو قاسم کے جانشین ابو دوجانہ گزشتہ پانچ سال سے وادی میں سرگرم بتائے جاتے ہیں اور وہ سرکار کو مطلوب ترین جنگجو کمانڈروں میں سرِ فہرست ہیں۔ابو قاسم نے پولس کے اہم ترین افسر الطاف عرف لیپ ٹاپ کو شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ میں تب ہلاک کردیا تھا کہ جب الطاف قاسم کے تعاقب میں تھے مگر خود اُنکے جال میں پھنس گئے اور ہلاک کردئے گئے۔اس واقعہ کے چند ہی دن بعد ابو قاسم کو جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع میں ایک ڈرامائی کارروائی میں مارا گیا تھا جہاں بعدازاں اُنکے جلوسِ جنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی تھی۔کسی غیر ملکی جنگجو کے اس قدر بڑے جلوسِ جنازہ کے بعد سرکار نے غیر ملکی جنگجووں کی لاشیں مقامی لوگوں کو سونپنا بند کرکے اُنہیں شمالی کشمیر میں کسی نامعلوم جگہ پر دفنانا شروع کیا تھا۔
ابو دوجانہ پر کئی بڑے حملوں،جن میں ادھمپور اور سرینگر کے مضافات میں ہونے والے حملے بھی شامل ہیں کہ جن میں سی آر پی ایف کے زائد از نصف درجن اہلکار ہلاک ہو گئے تھے،کا الزام ہے اور وہ خود ابھی تک کم از کم تین فورسز کے محاصرے میں آنے کے باوجود فرار ہوکر بچ نکلنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ابو دوجانہ پر کئی بڑے حملوں،جن میں ادھمپور اور سرینگر کے مضافات میں ہونے والے حملے بھی شامل ہیں کہ جن میں سی آر پی ایف کے زائد از نصف درجن اہلکار ہلاک ہو گئے تھے،کا الزام ہے اور وہ خود ابھی تک کم از کم تین فورسز کے محاصرے میں آنے کے باوجود فرار ہوکر بچ نکلنے میں کامیاب رہے ہیں۔پلوامہ میں ایک کار میں سفر کے دوران وہ مشکل سے فرار ہو پائے تھے تاہم اپنا موبائل فون کار میں ہی بھول آئے تھے جسے بعدازاں سرکاری فورسز نے ضبط کردیا تھا۔ذرائع کے مطابق سکیورٹی ایجنسیاں ابھی تک اس فون کو کھول نہیں پائی ہیں۔ایک پولس افسر کے مطابق لشکر کمانڈر سرکاری فورسز کے راڈار پر ہیں اور اُنکی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا رہی ہے۔(رائزنگ کشمیر کے شکریہ کے ساتھ)