سرینگر//جموں کشمیر پولس نے کہا ہے کہ بڈگام ضلع میں ایک عام شہری کو فوجی گاڑی کے ساتھ باندھ کر انسانی ڈھال کے بطور استعمال کرنے کے ملزم فوجی افسر،لیتل گوگوئے،کو اعزاز دئے جانے کے باوجود اس معاملے سے متعلق درج ایف آئی آر قائم رہے کہ اور اسکی تحقیقات جاری رہے گی۔پولس کا کہنا ہے کہ شمالی کشمیر میں 90جنگجو سرگرم ہیں تاہم ان سے جلد ہی نپٹا جائے گا۔
ابھی حال ہی جموں کشمیر پولس کے انسپکٹر جنرل(آئی جی) کی کرسی پر بیٹھے منیر احمد خان نے آج شمالی کشمیر کا دورہ کیا اور یہاں کی صورتحال کا جائزہ لیا۔سنگبازی اور اس طرح کے تشدد کے لئے جانے جانے والے سوپور علاقہ میں ایک پولس تھانہ کے اندر بلائے گئے معززین کے ساتھ ملاقات کے دوران منیر خان نے کہا کہ پولس کی کامیابی کے لئے عوام کا تعاون انتہائی ضروری ہے اور اسکے بغیر کامیاب پولیسنگ ممکن نہیں ہو سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر پولس کو عوام دوست بنانے اور ہر سطح پر کامیاب بنانے کے لئے کئی اقدامات کئے جارہے ہیں جنکا نتیجہ جلد ہی دیکھا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیری نوجوان انکی ترجیح ہیں اور وہ انکے بہتر مستقبل کے لئے فکر مند ہیں۔انہوں نے کہا کہ پولس کو عوامی حمایت حاصل ہوتو وہ نوجوانوں کو بہتر راستے پر ڈال سکتی ہے۔
”تحقیقات میں کیا سامنے آتا ہے، وہ ایک الگ سوال ہے لیکن ایف آئی آر کالعدم قرار نہیں دی گئی ہے ، اگر چہ میجر گوگوئی کو اعزا ز سے بھی نوازا گیا ہے“۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شمالی کشمیر میں نوے جنگجو سرگرم ہیں جن میں کئی غیر ملکی بھی شامل ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ فوج ،پولس اور دیگر فورسز چوکس ہیں اور دراندازی کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنایا جائے گا۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ”بڈگام کے ایک شخص کوانسانی ڈھال کے بطور استعمال کئے جانے سے متعلق ایف آئی قائم ہے اور معاملے کی تحقیقات جاری ہے“۔انہوں نے مزید کہا”تحقیقات میں کیا سامنے آتا ہے، وہ ایک الگ سوال ہے لیکن ایف آئی آر کالعدم قرار نہیں دی گئی ہے ، اگر چہ میجر گوگوئی کو اعزا ز سے بھی نوازا گیا ہے“۔انہوں نے کہا ” ایف آئی آر درج ہونے کا مطلب تحقیقات کا آغاز ہوتا ہے،چھان بین مکمل کی جائے گی اوریہ دیکھا جائے گا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے“؟ قابل ذکر ہے کہ بڈگام میں 9اپریل کے روز فوج کے ایک میجر،لیتل گوگوئے،نے فاروق احمد ڈار نامی ایک شخص کو ایک گاڑی کے بانٹ پر بٹھاکر رسیوں سے باندھ دیا تھا اور 27کلومیٹر لمبے راستے پر اسے انسانی ڈال کے بطور استعمال کیا گیا تھا۔اس واقعہ کی وسیع پیمانے پر مذمت ہوئی تھی جبکہ پولس نے ایف آئی آر درج کی تھی تاہم فوج نے حیرانکن طور پر مذکورہ افسر کو اعزاز سے نوازا ہے جس پر اپوزیشن اور مزاحمتی تنظیموں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
منیر احمد خان کا کہنا تھا کہ صرف پولیس اکیلے اور اپنے طور ہی صورتحال بالخصوص طلباءکے جاری احتجاجی مظاہروں پر قابو نہیں پاسکتی بلکہ اس کےلئے والدین کو بھی آگے آکر موثر رول ادا کرنا ہوگا۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس نے سوپور اور بارہمولہ میں پولیس پبلک میٹنگوں سے خطاب کے دوران طلبہ کے احتجاجی مظاہروں کا تذکرہ بھی کیا اور اس سلسلے میں والدین پر اپنی ذمہ داریاں نبھانے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ والدین کو ہی طلباءو طالبات کے حوالے سے پائی جارہی کشیدگی پر قابو پانے اور انہیں سڑکوں پر آنے سے روکنے کےلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔منیر احمد خان کا کہنا تھا کہ صرف پولیس اکیلے اور اپنے طور ہی صورتحال بالخصوص طلباءکے جاری احتجاجی مظاہروں پر قابو نہیں پاسکتی بلکہ اس کےلئے والدین کو بھی آگے آکر موثر رول ادا کرنا ہوگا۔اس ضمن میں ان کا کہنا تھا”ہم نوجوان نسل کے تعلیم سے محروم ہونے کے متحمل نہیں ہوسکتے ،والدین کو ہی لڑکوں اور لڑکیوں کو سمجھا بجھا کر اس بات پر آمادہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنی توجہ تعلیم کے حصول کی طرف دیں“۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے اگر موازنہ کیا جائے تو والدین کے مقابلے میں پولیس کا رول انتہائی محدود ہے۔