سرینگر//
حزب کمانڈر ذاکر موسیٰ کے بیان اور حزب سے بغاوت پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے علیٰحدگی پسندوں کی مشترکہ قیادت نے کسی بھی طرح کے دباو میں نہ آنے کا عزم کرتے ہوئے لوگوں سے ”جدوجہدِ آزادی“ کے ساتھ بصیرت و حکمت کے ساتھ بناے رہنے کے لئے کہا ہے۔ سید علی شاہ گیلانی ، مولوی عمر فاروق اور یٰسین ملک نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ” کشمیری قوم کی حقِ خودارادیت کے لیے جاری جدوجہد پوری یکسوئی اور اتحادواتفاق کے ساتھ جاری رہے گی اور اس کو کسی بھی قیمت پر انتشار اور افتراق کے حوالے کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے“۔
کشمیری قوم کی مسلمہ سیاسی وعسکری قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب کی بار ان کے منصوبوں کا تدّبر کے ساتھ مقابلہ کریں گے اور قوم کو کسی بھی طرح کے انتشار اور افتراق کی نذر نہیں ہونے دیا جائے گا
انہوں نے جدوجہدِ آزادی میں سرگرم تمام سیاسی وعسکری تنظیموں سے دُور اندیشی اور بالغ نظری کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ اس نازک مرحلے پر ہر اس عمل اور بات سے احتیاط برتنے کی ضرورت ہے، جن سے خدانخواستہ غلط فہمیاں پیدا ہونے کا اندیشہ لاحق ہوتا ہو اور جن سے ”ہمارا دشمن فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوسکتا ہو“۔ مشترکہ بیان میں ذاکر موسیٰ کے بیان سے متعلق تنازعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے ” نوے کی دہائی میں ہمیں بہت زیادہ تلخ اور ناخوشگوار تجربات سے سابقہ پڑا ہے، جن سے ہمیں کافی کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔ اُس وقت ہم نے اپنا بیشتروقت دشمن کی چالوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے آپس کے معاملات میں صرف کیا اور ہم نے دلیل اور بُرہان کی بجائے خالص جذبات کی پیروی کی ۔ اس طریقۂ عمل سے ہماری جدوجہدِ آزادی کو کافی نقصان پہنچا اور دشمن اکثر اوقات اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں بھی کامیاب ہوا ۔ اس سے ہمارا سفر آزادی طویل بھی ہوا ہے اور اس کی قربانیوں کے حوالے سے بھی ہمیں بھاری قیمت چُکانی پڑی “۔
اپنے سابقہ پالیسی بیان پر قائم رہتے ہوئے بیان میں کہا گیا ہے” گوکہ بھارت آج بھی ہماری آواز دبانے کی ہر سطح پر کوشش کررہا ہے، وہ اپنی ملٹری مائیٹ کا بھی بے تحاشا استعمال عمل میں لارہا ہے اور درپردہ سازشیں رچانے میں بھی مصروف ہے، البتہ کشمیری قوم کی مسلمہ سیاسی وعسکری قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب کی بار ان کے منصوبوں کا تدّبر کے ساتھ مقابلہ کریں گے اور قوم کو کسی بھی طرح کے انتشار اور افتراق کی نذر نہیں ہونے دیا جائے گا“۔ انہوں نے کہا ہے کہ قیادت نے دشمن کی شدّت پسند اور اعتدال پسند کی تقسیم کو مٹا کر پوری قوم کو حقِ خودارادیت کے نعرے پر متحد کیاہے۔ یہ ایک بڑی کامیابی اور بڑی پیش رفت ہے، جس نے بھارت کے پالیسی سازوں کو بوکھلاہٹ کا شکار بنادیا ہے۔
مزاحمتی قائدین نے کہا ہے کہ 2016 کا عوامی انتفادہ اور ضمنی الیکشن ڈرامے کے موقعہ پر لوگوں کا مثالی بائیکاٹ قوم کے اتحاد واتفاق سے ممکن ہوا ہے اور ہم پر یہ نازک ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس اتحاد کو کسی قسم کی زک نہ پہنچنے دیا جائے اور ہر اُس عمل اور ہر اُس بات سے اجتناب کیا جائے، جو اس میں رخنہ ڈالنے کی باعث بنتی ہو اور جس سے دشمن کو آکسیجن فراہم ہوتا ہو۔ بیان میں کہا گیا کہ تحریکِ آزادی کی سیاسی اور عسکری قیادت کی پُشت پر قربانیوں کی ایک قابلِ قدر تاریخ ہے اور وہ تدّبر، بالغ نظری اور تجربات سے بھی مالا مال ہے۔ وہ انتہائی مشکل صورتحال میں کھڑا رہنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے اور حالات کی نامساعدت اُس کو مرعوب اور خوفزدہ نہیں کرسکتی ۔ اس قوم کی نوجوان نسل کو اپنی مسلمہ قیادت کی فہم وفراست اور تجربات سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے اور ہم سب کو مل جل کر اس کاز کو کامیابی کے حصول تک جاری وساری رکھنا ہے ۔