اسلام آباد//
پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے کلبھوشن یادو کی سزائے موت رکوانے کے لیے عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کرنے کے معاملے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
بدھ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے عالمی عدالت میں جو درخواست دی گئی ہے اس سلسلے میں عدالت کے دائرہ اختیار کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور آنے والے ایک دو روز میں دفترِ خارجہ باضابطہ طور پر بیان جاری کرے گا۔
پاکستان کی فوجی عدالت نے کلبھوشن یادو کو جاسوسی اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے جرم میں سزائے موت دینے کا حکم دیا ہے۔
انڈیا اب تک 15 سے زیادہ مرتبہ كلبھوشن یادو تک قونصلر رسائی کا مطالبہ کر چکا ہے، لیکن پاکستان نے اب تک اس کی منظوری نہیں دی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں پاکستانی اور انڈین وزرائے اعظم کی ملاقات کے امکان کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سرتاج عزیز نے کہا کہ ’اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے، اگر ان کی طرف سے خواہش ظاہر کی گئی تو پھر دیکھا جائے گا۔‘
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ افغانستان اور ایران پاکستان کے دشمن نہیں بلکہ دوست ممالک ہیں اور ان دونوں ممالک کے ساتھ ‘بارڈر مینیجمنٹ’ بہت ضروری ہے۔وزیراعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ نے بتایا کہ پاکستان اور ایران کا مشترکہ بارڈر کمیشن تشکیل دے دیا گیا ہے جس کا اجلاس ایک ماہ کے اندر ہوگا۔ان کے مطابق اس کمیشن میں دونوں ممالک سے چار چار ارکان شامل ہوں گے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان اور ایران کی سرحد پر صرف دہشت گردوں کا مسئلہ نہیں بلکہ وہاں سمگلر اور دیگر عناصر بھی موجود ہیں۔انھوں نے کہا کہ شدت پسند تنظیم جیش العدل کے زیادہ تر عناصر ایران کے اندر پھیلے ہوئے ہیں اور ایران میں دہشت گرد افغان ایران سرحد سے بھی داخل ہو سکتے ہیں۔
افغانستان کے ساتھ سرحد پر حالیہ جھڑپ کے بعد کی صورتحال کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ چمن میں پاک افغان سرحد جزوی طور پر کھول دی گئی ہے اور پہلے مرحلے میں بیمار افغانوں کو جانے کی اجازت دی گئی ہے۔سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاک افغان معاملے کے حل کے لیے چار فریقی نظام موجود ہے جہاں بات ہو سکتی ہے اور افغان صدر نے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے لیے تیسرے فریق کی شرط نہیں رکھی ہے۔