طلاق کا لفظ کاٹ میںدودھاری تلوار سے زیادہ تیز ثابت ہواہے ۔اس کا زخم خنجرکے زخم کی طرح غیر مندمل ہوتا ہے ۔یہ رشتوں کے کاٹنے کے لئے اسی طرح کام کرتا ہے جس طرح استرا بالوں کو مونڈھنے کا کام انجام دیتا ہے ۔یہ شوہر کوبیوی سے کاٹتا ہے اور بیوی کو شوہر اور بچوں سے جدا کرتا ہے ۔یہ خوشحالی اور شادمانی کوغم و اندوہ میں بدل دیتا ہے ۔یہ معصوم سی پری اور کلی کے خوابوں کو چکناچور کرتا ہے ۔یہ بااولاد ماں کو بے اولاد عورت کے مقام پر لا کھڑا کرتا ہے ۔یہ ماں کے سایہ شفقت سے بچوں کو محروم کردیتا ہے اور شوہر کو بے بیوی اور بیوی کو بغیر شوہر بنا دیتا ہے ان تمام ترکراہتوں کے باوجوداسلام نے اسے ”جائز“ قرار کیا دیا ہے کہ گویا نعوذباللہ کوئی ”جرم“انجام دیا ہو !بھارت بھر میں ہندتواکے علمبرداروں نے اس مسئلے کو ”پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا“میں انتہائی مکروہ صورت میںشور و غوغو کے نذر کرکے گویا اسلام کے ”غلط“ہونے کی سند حاصل کر لی ہو اورتو اور ”تسلیمہ نسرین اور طارق فتح“جیسے فتورزدہ اشخاص کے ذریعے اسلام کے اس قانون کے خلاف بدتمیزی کا طوفان کھڑا کر کے یہ سمجھ لیا ہے کہ اسلام کی جو ”کمزوری“ہمارے ہاتھ میں لگی ہے وہ گذشتہ چودہ سو برس میں کسی بھی دانشور اور محقق کی نگاہ میں نہیں آئی ہے حتیٰ کہ اسلام کی عداوت میں دن رات جلنے والے” مستشرقین “کو بھی اس پر نظر نہیں پڑی ہے بس اب اسلام کی اس ”غلطی“کی ایجادوانکشاف کا اعلان باقی ہے !
بھارت کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا جو دورِ حاضر میں انسانیت کا بدترین دشمن قرار دینے کے لائق ہے نے ”ہندو تجزیہ نگاروں “کے ذریعے مسئلہ طلاق کو موضوع بحث بنا لیاہے اور تو اور جن ”للو پنجو دانشوروں“کو اس نازک اشو پر بات کرنے کے لئے ٹیلی ویژن چینلز میں اکھٹا کیا جاتا وہ شور شرابہ برپا کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں جانتے ہیں ۔بھارتی میڈیایہ منفی تاثر دینے میں کامیاب ہو چکا ہے کہ یہ ”سیکولر اور جمہوری میڈیا “نہیں بلکہ مسلم اور اسلام دشمن میڈیا ہے اس لئے کہ کسی بھی مذہبی اشو پر بات کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس کا خود پورے نظام یا مذہب اور سماج سے کیااور کیسا تعلق بن رہاہے؟سطحی مطالعہ یا سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر ٹیلی ویژن چینلز کے اسٹڈیوز میں بیٹھ کر شیخی بگھارنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا ہے کہ مسلم سماج کسی کی باتوں سے متاثر ہو کر دین کی توضیح و تشریح کے لئے بھی آمادہ ہو جائے ۔ المیہ کا یہی ایک رُخ ہوتا تو شاید مسلم دانشور برداشت کر لیتے مگر ”دینِ مظلوم“کو خود مسلمانوں نے اپنی کم علمی ،جہالت ،بے عملی اور بد اخلاقی سے جتنا نقصان پہنچایا ہے اس کی بھی کوئی مثال نہیں ہے ۔
طلاق کو اسلام نے جائز کیوں رکھا ہے پر بات بعد میں ہوگی پہلے ہم ذرا اپنے گریبان میں جھانک لے کہ دورِحاضر کے لکھے پڑھے مسلمانوں میں اس کی شرح انتہائی تیزی کے ساتھ پہلے کے مقابلے میں بڑھ کیوں رہی ہے اور یہ مسئلہ مسلم سوسائٹی کے دائرے سے باہر نکل کر ٹیلی ویژن سے لیکر عدالت اور پارلیمنٹ تک کیوں پہنچ رہا ہے ؟ہمارا اجتماعی قصور یہ ہے کہ ہم اپنی اولاد کی تربیت سے غافل ہو چکے ہیں ۔ہم انہیں دوسروں کی نقالی میں صرف پیسہ کمانے والی مشینیں بنا رہے ہیں گرچہ ہندوستان کا مسلمان تعلیم میں اس قدر پسماندہ اور معیشت میں پچھڑا ہوا ہے کہ ”سچر کمیٹی “کی سرکاری رپورٹ شائع ہو نے کے بعدغربت وافلاس کے تصور سے بھی روح کانپ اٹھتی ہے ۔تھوڑی سی لاج اہل مدارس نے بنیادی تعلیم دیکر رکھی تو ضرور ہے مگر پچیس کروڑ کو نبھانا ان کے بس کی بات نہیں ہے ۔بچے جب لڑکپن میں بھی قدم رکھتے ہیں تو ہم انہیں حلال و حرام ،حق و ناحق اور جائز و ناجائز سے بے خبر رکھتے ہیں ۔جب یہ شادی کی عمر میں پہنچ جاتے ہیں تو انھیں یہ تک نہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اصول و ضوابط اور واجبات و سنن کیا ہیں ؟اور تو اور میں نے ایک ”شہید“کے گھر میں جب ”مجلسِ نکاح“میں اس کی آسانیوں اور دورِ حاضر کی ستم رانیوں پر بات کی تو مجلس میں موجود بعض بزرگ تک حیرت میں ڈوب گئے اور یہ انکشاف کرنے سے بھی نہیں چوکے کہ ہمیں تو یہ باتیں ہی معلوم نہیں تھیں کہ نکاح کیسے منعقد ہوتا ہے حالانکہ وہ باپ ہی نہیں باپوں کے باپ بھی بن چکے تھے!
موضوع سے ہٹ کر برسبیل تذکرہ یہ عرض کر ہی دوں کہ نکاح عُرف کا لحاظ رکھتے ہو ئے جائز اور مروجہ طریقوں سے پیغام کے بعد صرف اور صرف ”ایجاب و قبول “کا نام ہے تجارت یا لین دین کا نہیں۔اگر کسی وجہ سے سینکڑوں رسوم اور بدعات میں سے ایک بھی پوری کئے بغیر صرف قریب ترین اولیاءکی رضامندی اورموجودگی میں ایجاب و قبول کر کے” اعلانِ نکاح“ کیا جائے تویہ نکاح مکمل اور اکمل ہے ۔رسوم اور جہیز کی لعنت نے ہماری سوسائٹی کوشرمناک المیہ سے دوچار کردیا ہے ۔غریب بچیوں کا استحصال پہلے جہیز کا مطالبہ کر کے کیا جاتا تھا اور اب بعض بے شرموں نے ایک نیا طریقہ یہ ایجاد کر لیا ہے کہ مطلوبہ لڑکی کے گھر پیغام کے ساتھ ساتھ یہ جھوٹی خبر بھی پہنچادی جاتی ہے کہ ہمیں تو کچھ بھی نہیں چاہیے ۔جہیز تو درکنار کوئی ادنیٰ سی چیز بھی اگر ہمارے گھر بھیجی گئی تو رشتہ منسوخ ۔بے چاری لڑکی اور اس کے گھر والے اپنے رشتہ داروں میں اس نایاب کردار پر قصیدہ خانی شروع کرتے ہیں کہ ایسا با اخلاق اور شریف لڑکا شاید ہی کسی ماں نے اسے پہلے جنا ہو جیسا دلاراہمارے نصیب ہوا! دلہن کے راج دُلارے کے گھر پہنچنے کے چندروز بعد ماحول یکسر بدل جاتا ہے ۔ساس کی شکل میں ”ڈائین “خالی ہاتھ آنے کے طعنوں کا آغاز کرتے ہی نئی نویلی دولہن کا جینا حرام کردیتی ہے ۔بہو نا ہی یہ سہہ پاتی اور نا ہی والدین سے شرم کے مارے ”جہیز“کامطالبہ کر پاتی ہے اور نتیجہ آہستہ آہستہ اس کولڑائی جھگڑوں تک پہنچا دیتا ہے ،شوہراور ساس ایک روز بہو کی شکایتوں کا انبار لگا کر طیش میں آکر” تین طلاق کی تلوارہاتھ میں لیکر“لڑکی والوں پر بجلی گرا دیتا ہے اور اس طرح ایک ادھ کھلا پھول عمر بھر کا روگ لیکر مرجھاجاتاہے۔
طلاقوں کی تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی شرح خوفناک حدود کو چھونے لگی ہے۔رنگین مزاج مردوں کی طرح لکھی پڑھی لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد بھی سماج کو بربادی کی جانب دھکیل رہی ہے ۔حُسن پرست مردوزن نے میعار اور اقدار کو ہی تبدیل کر دیا ہے ۔بعض لوگ ازدواجی زندگی میں بھی غیر شائستہ حرکتوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ ایک مرد نکاح کے ساتھ ساتھ کئی کئی لڑکیوں کے ساتھ تعلقات رکھتا ہے اور سوشل میڈیا کے ناسور کے ساتھ ساتھ یہ مرض اب مغربی خواتین کی طرح مشرقی خواتین میں بھی پھیلنے لگا ہے ۔اس سارے میں صرف والدین ذمہ دار نہیں ہےں بلکہ پورا سماج اوروہ تعلیمی نظام بھی جہاں سے جان بوجھ کر ”اخلاقی تعلیم“کا جنازہ نکال کر نئی نسلوں کو پیسہ کمانے کی مشینوں میں تبدیل کر کے ”ناانسان“بنا دیا جاتا ہے ۔ ایسے میں یہ نوجوان لڑکا اور لڑکی نا ہی نکاح کے واجبات و لوازمات سے واقف ہوتے ہیں اور نا ہی طلاق کی بربادی اور جواز اور عدم جواز سے !پھر جب زندگی کبھی تلخ رُخ پر چل پڑتی ہے تو یہ برداشت کر لینے کے بجائے ”طلاق یا خلع“کا سہارا لیکر زندگی کے موافق اور ناموافق سفر سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ایسے میں ایک جاہل سماج کو ”طلاق اور خلع“کے جواز یا فوائد کو کیسے سمجھایا جاسکتا ہے ۔
بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ ہندو¿ں کی اعلیٰ ذاتوں میں ”طلاق“کی کوئی جائز صورت موجود نہیں ہے ۔برعکس اس کے تمام آسمانی مسلم مذاہب نے اس کی گنجائش ضرور رکھی ہے ۔آخر کیوں؟مرد اور عورت بالغ ہوکر جب نکاح کے بندھن میں بند جاتے ہیں تو اسے پہلے یہ ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی اورغیرہوتے ہیں ۔نکاح اور رخصتی کے تک نا ہی یہ ایک دوسرے کے مزاجوں سے واقف ہوتے ہیں اور نا ہی تصورات،افکاروخیالات اور خواہشات سے۔یہ ہر چیز میںایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی ہو تے ہیں اور ہم آہنگی پیدا ہونے میں ”وقت“لگتا ہے اور خدا کی رحمت اکثر کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کردیتا ہے مگر بسااوقات اس کے برعکس بھی ہو جاتا ہے اور ان کی تعداد نا ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔اس ناموافقت اور دوری سے بعض خطرناک مسائل جنم لیتے ہیں ۔ جدائی کے دروازے بند ہونے کی صورت میں ”زنا“جیسا بدترین فحاشیانہ عمل بھی سرزدہو سکتا ہے جو ایک سماج کے لئے کسی ناسور سے کچھ کم قرار نہیں دیا جا سکتا ہے ۔قلبی اور ذہنی ناموافقت کے سبب دوری اور شدیدنفرت کاباعث بنتا ہے۔اور تواور جدائی کے برعکس سماجی یا خاندانی دباو¿ کے پیش نظر یہ موافقت بسااوقات خودکشی اور قتل تک معاملات کو دراز کردیتا ہے ۔گناہوں اور قتل و غارتگری سے پاک رکھنے اور دیکھنے کے خواہش مند مذہب اسلام نے اسے بچنے کی ایک صورت ”طلاق“ضروررکھی ہے مگر اسکی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کی ہے جس کی وضاحت خودحضورﷺ نے اپنے ارشاد مبارک سے اس طرح فرمائی ہے کہ ”ابغض الحلال الی اللہ تعالیٰ الطلاق :یعنی اللہ تعالی کے نزدیک طلاق وہ حلال چیز ہے جو حلال ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کو خود ناپسند ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک چیز اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہے تو اس نے اس کو جائز کیوں قرار دیا ہے ؟یہ ایک اہم سوال ہے اس کے سمجھنے سے طلاق سے متعلق تمام تر اشکالات دور ہوتے ہیں ۔تخلیق انسان کے بعد جب اس کے رشتوں کی بات آتی ہے تو ”احترام ماں ،بہن ،بیٹی،پھوپھی،مامی،موسی،نانی،دادی اور بہو وغیرہ“میںاپنوں کو نکاح کے لئے حرام قرار دینے کے بعد غیر مانوس کے ساتھ نکاح کرنے کو جائز قرار دیکرمزاجی ،فطری ،فکری اور طبعی ناموافقت اور اختلاف کا خیال رکھتے ہو ئے گھریلو ماحول میں ممکنہ بگاڑ ،فحاشی ،زنا،خون خرابہ اور جنگ و جدال سے بچنے اور محفوظ رکھنے کے لئے نکاح کے بندھن کو توڑنے کی ایک صورت ”طلاق اور خلع“کی شکل میں باقی رکھی ۔ رشتوں کو توڑنے کا اختیار صرف مردوں کو ہی نہیں ہے بلکہ یہ ”خلع“کی شکل میں عورتوں کے پاس بھی محفوظ ہے فرق بس اتنا ہے کہ طلاق کے الفاظ مرد کی زبان سے نکلنے کے بعد مو¿ثر ہےں جبکہ خلع یعنی عورت کی جانب سے نکاح توڑنے کی خواہش کو فریقین یا عدالت تکمیل تک پہنچاتے ہیں ۔ طلاق کا اختیارعورت کے مقابلے میںمردکو تفویض کرنے کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں کم صابر ہوتی ہے اور اگر کہیں کوئی عورت مردوں جیسی صابر ہو اور مرد عورتوں کی طرح بے صبر ہو تو یہ ”دائرہ شذوز “میں داخل ہے عموم میںنہیں اور دنیامیں شذوز کو دیکھ کر فیصلے نہیں ہوتے ہیں بلکہ عموم کو دیکھ کر قوانین بنائے جاتے ہیں ۔
مسلم سماج آج بھی ”طلاقوں“کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور کرنی چاہیے جیسا کہ” خود نبی کریم ﷺ کے دورِ مبارک کا ایک واقع حدیث کی کتابوں میں موجود ہے اور امام نسائیؒ نے اپنی ”سُنن،جلددوم‘ ‘میں اس کو درج کیا ہے نبی کریم ﷺ کو ایک ایسے شخص کے متعلق خبر پہنچائی گئی جس نے اپنی بیوی کو بہ یک وقت ”تین طلاقیں“دیں تھیں تو آپﷺ یہ سنتے ہی غضبناک ہو گئے اور فرمایا کیا آپ لوگ میری موجودگی میں ہی کتاب اللہ کے ساتھ کھیلنے لگے ہو ایک شخص(حضورﷺ کا غصہ دیکھ کر)کھڑا ہوگیا اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ کیا میں اس کو قتل کر دوں؟“۔یہی وجہ ہے کہ حضرت فاروق اعظمؓ،حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ،حضرت ابن مسعودؓ،حضرت عبداللہ بن عباسؓ،حضرت عبداللہ بن عمرؓ،حضرت امام ابو حنیفہؒ،حضرت امام مالک ؒ اور حضرت امام احمد بن حنبل ؒکے نزدیک بہ یک وقت ”تین طلاق “دینا حرام اور بدعت ہے (بحوالہ درسِ ترمذی ،جلد سوم،صفحہ نمبر 468)اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ناپسندیدگی کے باوجود یہ مرد کے کہنے سے نافذ کیوں ہو جاتا ہے؟اس لئے کہ یہ بحیثیت بیوی ہی نہیںبلکہ ماں ،بہن اور بیٹی کی حیثیت سے اس کی توہین ہے اور اسلام مرد کا دیا ہوا سب کچھ عورت کے حوالے کر کے اس کو نافذ قراردیتا ہے چاہیے مرد نے پوری سلطنت بیوی کے مہر میں رکھی ہو یا ہدیہ کیا ہو وہ اب عورت کی ملکیت ہے مرد کی نہیں ۔
یہاں ہمارے غیر مسلم دوست اور سیکولر مسلمان حضرات دھوکہ کھا جاتے ہیںوہ سمجھتے ہیں کہ یہ عورت کو سزا ملتی ہے مرد کو نہیں ۔اس کے پیچھے دراصل خالص عجمی ذہن کام کرتا ہے جہاں بے شمار غیر فطری چیزیں معیوب نہ ہو کر معیوب اور بے شمار معیوب چیزیں معیوب ہوکر غیر معیوب ہی کہلاتی ہیں ۔ہمارے ہاں نکاح میں مہر نا ہونے کے برابر مقرر کیا جاتا ہے جبکہ عرب مہر اچھی خاصی مقرر کرتے ہیں ۔عجم میں مہر کے بجائے دوسرے مدات میں روپیہ اور سونا جمع تو کیا جاتا ہے تاکہ طلاق کی صورت میں سبھی اشیاءاور رقوم واپس لینی کی صورت نکل آئے جبکہ عرب ایسا نہیں کرتے ہیں اور قرآن طلاق کے وقت واپس لینا تو درکنار بلکہ اور بھی عنایات و اکرامات سے نوازنے کا حکم دیتا ہے۔ ہم طلاق کی سہولیات کے لئے راستہ خود ہموار رکھ کر الزام اسلام پر دھرنے والوں کو مواد فراہم کرتے ہیں ۔ طلاق کے بعد کشمیر میں نکاح ثانی عورتوں کے بجائے مردوں کے لئے کافی مشکل بلکہ مشکل ترین بن چکا ہے مگر رونے دھونے والے اس کو صرف عورت کے حقوق کی تلفی کے طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ سچائی یہ ہے کہ یہ دونوں کے لئے برابر کا چلینج ہوتا ہے ۔رہی بات یہ کہ ”جہالت “عام ہے اور اس کا فائدہ دور حاضر میں ملنا چاہیے بالکل احمقانہ دلیل ہے دنیا کا کوئی بھی مذہب اور ریاست کسی بھی شہری کو جرائم کے بعد عدم علمیت کا فائدہ نہیں دیتا ہے بلکہ عدالتیں حکومتوں کی سرزنش کرتی ہیں کہ آپ عوام میں قوانین کی جانکاری مہم کیوں نہیں چلاتے ہیں ۔برعکس اس کے غیر مسلم دانشور اور سیکولر اور لبرل مسلمان سلام کے قوانین میں ہی ترمیم کا مشورہ دیتے ہیں ۔
پدرم سلطان بود کے زعم میں مبتلا مسلمانانِ ہند ابھی تک غلامی کے بعد کے چلینجز کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ان کی قیادت جن مادہ پرست سیکولر لیڈروں کے ہاتھوں میں ہے ان کے قلوب کا قبلہ پیسہ ہے کعبہ نہیں !رہے مسلمان علماءوہ روایت پسند ہیں اور وقت کی رفتار کے ساتھ تقاضوں کے بدلاو¿ اور ان سے نمٹنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور جن میں صلاحیت ہے وہ”اجتہاد اور جہادبقلم“پر ذاتی اصلاح و احوال کو ترجیح دیکر ملت کو اپنے حال میں چھوڑ کر ایک طرح کی ”رہبانیت “میں گرفتار ہیں ۔نتیجہ یہ ہے کہ جتنے منہ اتنی باتوں کے مصداق بھارت کی سینکڑوں ٹیلی ویژن چینلز سے لیکرہزاروں اخبارات تک طلاق اور وندے ماترم کے مسئلے پر ”اسلام یکہ طرفہ طور پر تختہ مشق“بنایا جا رہا ہے اور مسلم سماج کے
ساتھ ساتھ غیر مسلم سوسائٹی بھی غلط فہمی میں مبتلا ہو رہی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ طلاق ہو یا نکاح پر عدالت یاپارلیمنٹ میں بحث ومباحثے کے بجائے تمام تر اشکالات علماءکے سامنے رکھے جائیں اور ان کی نوٹس میں نئے اشوز اور چیلنجز کو لا کر ان کے حل کی رہنمائی حاصل کی جائے ۔اس لئے کہ بعض اشوز ہندو¿ مذہب ،عیسائیت یا یہودیت کے ایسے ضرور ہیں جو مسلمانوں کے نزدیک غیر فطری اور غیر انسانی ہو سکتے ہیں جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم بعض اعتراضات کی آڑ میں مذہب اس کے شعائر و علامات اور علماءکی ہی توہین کر بیٹھیں بالکل اسی طرح دوسروں کو بھی اسلام ،مسلمانوں ،ان کے شعائر ، علامات اور علماءکی توہین کرنے کی بھی اجازت نہیں ہو سکتی ہے ۔یہ عدالت اور پارلیمنٹ کا مسئلہ نہیں بلکہ خالصتاََ مذہبی اشو ہے جس پر اگر بعض اشکالات مسلمانوں یا غیر مسلموں کو ہیںبھی توعلماءانہیں رفع کرنے کی صلاحیت ضرور رکھتے ہیں لہذا ضدِ اسلام یا مسلمان میں اسلام کو عدالت یا پارلیمنٹ میں گھسیٹنے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ اسکو مسلمانوں پر چھوڑ کر ملک میں انارکی اور عداوت کو فروغ دے کر پہلے سے خراب حالات کو خون خرابے تک نہ پہنچایا جائے ۔