سرینگر // ہمالیائی پہاڑی سلسلے کو چیر کر بنائی گئی جدید ترین اور قریب ساڑھے نو کلومیٹر لمبی سرنگ(ٹنل)کا اتوار کے روز وزیر اعظم نریندر مودی نے افتتاح کیا، یہ اس بات کا اعلان ہوگا کہ اب جموں اور سرینگر کے بیچ کی مسافت دو گھنٹہ کم ہوگئی ہے۔یہ ٹنل محض جموں اور سرینگر کی مسافت کم کرنے کے لئے ہی نہیں مشہور ہوگی بلکہ اسکے ذرئعہ جموں کشمیر کو پورے ایشیاءکی طویل ترین ٹنل کا گھر ہونے کا بھی اعزا حاصل ہوجائے گا۔وزیر اعظم مودی اتوار کو جموں -سرینگر شاہراہ پر ناشری کے مقام پر تعمیر کی جاچکی اس دو گلیاروں والی ٹنل کا افتتاح کرنے کے لئے وزیر اعظم مودی کل ریاست کے یکروزہ دورہ کرگئے ۔ اُن کے اس دورے کے خلاف وادی کشمیر میں علیٰحدگی پسند قیادت کی کال پر مکمل ہڑتال رہی۔
نوکدار اور کھسکنے والے پہاڑوں پر سے گزرنے والی جموں-سرینگر شاہراہ کشمیر کو جموں کے راستے باقی دنیا کے ساتھ ملانے والی واحد زمینی سڑک ہے جسے وادی کشمیر کی ”لائف لائن“بھی کہا جاتا ہے۔تاہم موسم کے معمولی خراب ہونے کی صورت میں یہ راستہ اکثر اوقات کئی کئی دن تک بند ہوجاتا ہے اور ہزاروں مسافر اس تین سو کلومیٹر لمبے راستے پر کبھی بھی کہیں بھی درماندہ ہوجاتے ہیں جبکہ سپلائی بند ہوجانے کی وجہ سے وادی کشمیر میں لوگوں کو جان کے لالے پڑنے لگتے ہیں۔تاہم سات سال کے عرصہ میں تعمیر کی جاچکی مذکورہ ٹنل کے شروع ہوجانے سے اس تھکادینے والے سفر پر خوشگوار فرق پڑنے کی امید کی جارہی ہے۔ذرائع کے مطابق اگرچہ یہ ٹنل کی لمبائی ساڑھے نو کلومیٹر کے قریب ہے تاہم اسکی وجہ سے مجموعی طور تین سو کلومیٹر کا سفر محض اڈھائی سو کلومیٹر تک سکڑ جائے گا کیونکہ ٹنل نہ ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کو گھوم گھوم کر گزرنا پڑتا تھا ۔اسکے علاوہ یہ بھی امید کی جاسکتی ہے کہ اس سرنگ کی تعمیر کے بعد جموں-سرینگر شاہراہ ہر موسم میں قابل استعمال رہے گی کیونکہ یہ سرنگ جموں کی جانب ادھمپور ضلع میں چنانی کی جگہ کوبراہ راست وادی کی جانب سے رام بن ضلع میں ناشری کے ساتھ جوڑے گا ۔یہی وہ علاقہ ہے کہ جہاں معمولی برسات کے دوران بھی اکثر پہاڑ کھسکنے کی وجہ سے مذکورہ شاہراہ کئی کئی دن تک نا قابل استعمال بنتی رہی ہے۔دلچسپ ہے کہ اس ٹنل کی تعمیر کی وجہ سے جموں اور سرینگر کے بیچ سفر کرنے والوں کو اب پتنی ٹاپ سے ہوکر نہیں گزرنا پڑے گا اور کل41کلومیٹر کے سفر کی جگہ اب محض 9.2کلومیٹر(ٹنل کی لمبائی)کا ہی سفر کاٹنا پڑے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹنل کو مکمل ہوئے اب کچھ عرصہ گزرا ہے لیکن وزیر اعظم چونکہ خود ہی اس منصوبے کا افتتاح کرنا چاہتے تھے لہٰذا اس میں دیر ہوگئی حالانکہ گئی سردیوں میں لوگوں کی جانب سے کئی بار مزید دیر کئے بغیر اس ٹنل کو کھلا چھوڑ دئے جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ان ذرائع کا کہنا ہے کہ 23مئی2011کو تعمیر کے لئے ہاتھ میں لئے گئے اس منصوبے پر ڈیڑھ ہزار انجینئروں،کان کنوں،کاریگروں اور مزدوروں نے دن رات کام کیا ہے۔ابتدائی طور اگرچہ اس منصوبے کے محض پانچ سال میں مکمل ہونے کا نشانہ مقرر تھا تاہم اس پورے علاقے میں موسم کے اکثر خراب رہنے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوپایا اور کام دو سال کی تاخیر سے ہی 3720کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہوسکا۔ایک سرکاری افسر کے مطابق دو گلیاروں والی یہ سرنگ جدید انجینئرنگ کا ایک شاہکار ہے جس میں نہ صرف خراب ہونے کی صورت میں گاڑیوں کی پارکنگ کا انتظام ہے بلکہ دونوں گلیاروں کو ہر تین سو میٹر کی دوری پر جوڑنے کے لئے 29کراس رکھے گئے ہیں۔ٹنل کے اندر دھواں جمع ہونے کے مسئلے سے نپٹنے کے لئے بھی ٹنل میں باہر کی جانب خاص کھڑکیاں رکھی گئی ہیں جبکہ سکیورٹی اور ٹرایفک قوانین کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لئے اسکے اندر 124سی سی ٹی وی کیمرہ نصب کئے گئے ہیں۔
سرینگر اور جموں کے بیچ کے تھکادینے والے سفر سے پریشان لوگوں کے لئے یہ سرنگ یقیناََ ایک بڑا تحفہ ہے تاہم بٹوت،پتنی ٹاپ اور کُد کے تین چھوٹے قصبوں کے لوگ اسے اپنے لئے نیک شگون نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ سرنگ کی وجہ سے موجودہ شاہراہ کے یہ تینوں اہم سٹاپ بائی پاس ہوجاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان مقامات کا کاروبار تقریباََ پوری طرح ختم ہونے جارہا ہے۔تاہم جموں کشمیر سرکار یں افسروں کا کہنا ہے کہ ان مقامات کے کاروباریوں کی باز آبادکاری کے لئے ایک منصوبہ زیر غور ہے۔