صریر خالد
اسوقت جبکہ جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے والی آئینِ ہند کی دفعاتِ مخصوصہ کے خلاف بھاجپا کی سرپرست آر ایس ایس نے ”قانونی جنگ“چھیڑی ہوئی ہے بھاجپا خود بھی ریاست میں ایسی پیش قدمی کرنے لگی ہے کہ جسے جموں کشمیر کی مسلم شناخت بگاڑ دئے جانے کے خدشات کو تقویت پہنچاتے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ایک زبردست ہنگامہ کے محض سال بھر بعد بھاجپا نے بہت زیادہ ڈھول پیٹے بغیر جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع کے پہاڑی سلسلہ میں واقعہ ایک جھیل ”کوثر ناگ“کی یاترا شروع کرائی ہے۔حالانکہ اس حوالے سے محض سال بھر قبل وادی میں زبردست احتجاج ہوا تھا اور لوگوں نے مذہبی یاتراوں کے نام پر سیاست کرنے کو پوری ریاست کے لئے تباہ کن بتاتے ہوئے اس حوالے سے زبردست مظاہرے کئے تھے۔لیکن اب جبکہ ریاست میں بھاجپا کی شراکت والی سرکار ہے سالانہ یاتراوں کے لئے نِت نئے ”پوِترءاستھاپنوں کی کھوج“جاری ہے تو دوسری جانب علیٰحدگی پسندوں کی جانب سے کشمیر کی ”مُسلم شناخت“کے خلاف سازشیں ہونے کے خدشات کا اظہار۔
سوموار کو خبر آئی کہ صوبہ جموں میں ریاسی کے ممبرِ اسمبلی اجے نندا نے جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع کے پہاڑی سلسلہ میں واقعہ ایک اَچھوئی جھیل”کوثر ناگ“کی جانب ایک یاترا روانہ کی ہے جسکے لئے ریاسی کو ”بیس کیمپ“بنایا گیا ہے۔اس موقعہ پر اُنہوں نے اس یاترا کو ایک جاری رہنے والی سرگرمی بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ریاسی سے کوثر ناگ تک پانی ،بیت الخلائ،طعام و قیام اور اس طرح کی سبھی دیگر سہولیات دستیاب کرائیں گے اور اس پورے انتظام کی ازخود نگرانی کریں گے۔ذرائع کے مطابق ”یاتریوں کے پہلے قافلہ“کی روانگی کے لئے بھاجپا کے مذکورہ لیڈر کے علاوہ ضلع کی سیول و پولس انتظامیہ اور ”چیدہ چیدہ شخصیات“موجود تھیں جنہوں نے بڑے تزک و احتشام کے ساتھ یاترا کو روانہ کیا۔ان ذرائع کے مطابق نندا نے اس موقعہ پر انتظامیہ کو کوثر ناگ کو شہرت دینے کے لئے جامع حکمتِ عملی مرتب کرنے کی ہدایت دی اور کہا کہ اس حوالے سے نمایاں مقامات پر تشہیری بینر نصب کئے جانے چاہیئں تاکہ ویشنو دیوی مندر کی یاترا کو آنے والے ایسے (کوثر ناگ)مقامات کی جانب موڑ دیا جاتا رہے۔ریاست اور یہاں سے باہر کے انگریزی اخباروں میں چھپی اس خبر میں کہا گیا ”نندا نے سیول انتظامیہ سے اس(کوثر ناگ)کی شہرت کے لئے جامع حکمتِ عملی مرتب کرنے کے لئے کہا اور نمایاں مقامات پر اسکی ہورڈنگس لگانے کی ہدایات دیں تاکہ ویشنو دیوی کے درشن کرنے کے بعد عقیدتمندوں کو ایسے(کوثر ناگ جیسے)مقامات کی جانب موڑا جا سکے“۔بظاہر یہ ایک مختصر اور عام سی خبر تھی لیکن اسکے پسِ منظر اور اسکے potentialسے واقف لوگوں کے لئے یہ ایک بہت بڑا دھماکہ قرار پاتا ہے۔
”کوثر ناگ یاترا“کو لیکر سب سے پہلے گذشتہ سال کے وسط میں تب صورتحال ہنگامہ خیز ہوگئی تھی کہ جب یہ عجیب انکشاف ہوا کہ جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع میں صاف پانی کی ایک اچھوئی جھیل کی جانب ایک بڑی یاترا کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔کولگام اور جموں صوبہ کے ریاسی ضلع کے درمیان کے پہاڑی سلسلہ میں واقع کوثر ناگ نامی مختصر اس جھیل کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ پانچ کلومیٹر لمبے اور اس کے نصف چوڑائی والا یہ صاف پانی کا ایک ایسا ذخیرہ ہے کہ جو انسانی آبادی سے بہت دور ہونے کی وجہ سے ابھی تک اَچھوا ہے اور دنیا بھر میں مشہور جموں و کشمیر کے شفاف و دلکش ماحول کا ایک اہم جزو ہے۔ حالانکہ متنازہ یاترا سے جُڑ جانے سے قبل چند دن پہلے تک اس مقام کا شائد عام لوگوں نے کبھی نام بھی نہ سُنا ہوگا۔
بتایا جاتا ہے کہ جموں صوبہ کے ریاسی ضلع کی جانب سے چند ایک ہندو لوگ سال میں ایک بار کوثر ناگ کی جانب نکلتے رہے ہیں تاہم یہ کوئی مشہور مذہبی تہوار کبھی نہیں رہا ہے کہ جسکی کوئی باضابطہ تشہیر ہو یا جس میں سینکڑوں یا ہزاروں لوگ شامل ہوکر ماحولیات کے لئے کسی قسم کا خطرہ پیدا کرتے۔اب کے تاہم اچانک ہی ”کوثر ناگ یاترا“کا کچھ اس دھوم سے ڈھول بجنے لگا ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگ ریاست کے نقشے پر اچانک ہی اُبھرنے والے اِس نئے ”پوِترءاستھاپن“کے بارے میں سُن کر حیران ہیں۔”کوثر ناگ یاترا“کے لئے انتظامات کی تکمیل کے لئے گذشتہ سال پہلی بار سرکاری احکامات جاری ہوتے دیکھ کر تو ریاست،با الخصوص وادی میں،حیرانگی و تشویش کی ایک لہر سی دوڑی اور لوگ یہ جاننے کے لئے متفکر نظر آئے کہ آخر جموں و کشمیر کے نقشے پر ”یاترا نیٹورک“اچانک ہی کیسے وسیع ہونے لگا ہے اور کیوں؟۔
جنوبی کشمیر ،با الخصوص کولگام و شوپیاں اضلاع میں،لوگوں نے کسی نئی یاترا کے منصوبوں کے بارے میں سُنتے ہی اسکے خلاف آواز اُٹھائی اور دھمکی دی کہ اس طرح کے کسی بھی منصوبے کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔”کوثر ناگ بچاو محاذ “نام کی ایک انجمن کا قیام عمل میں لا کر ان لوگوں نے سرینگر میں احتجاجی جلوس نکالے اور خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ماحول کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دینگے۔محاذ کا کہنا تھا”گوکہ ہم کسی مذہب کے خلاف تو نہیں ہیں لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ مذہب کی آڑ میں ہم سیاست ہوتے دیکھیں اور ہمارے ماحولیات کو بھی تباہ کر دیا جائے“۔بعدازاں علیٰحدگی پسندوں اور سیول سوسائٹی کے گروپوں نے بھی اس حوالے سے آواز اُٹھائی یہاں تک کی احتجاجی ہڑتال کرائی گئی جسکے بعد معاملہ دب سا گیا۔تاہم جس انداز سے بھاجپا کے ایک لیڈر نے،وہ بھی اسوقت جب پارٹی ریاست کے اقتدار میں ہے،نہ صرف اس یاترا کا آغاذ کیا ہے بلکہ ایک معنیٰ خیز بیان دیکر ویشنو دیوی کی یاترا کو آنے والے لاکھوں یاتریوں کو اس جانب موڑنے کے منصوبوں کا انکشاف کیا تو ظاہر ہے کہ یہ معاملہ پھر بر سر آیاہے۔
حالانکہ علیٰحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی کئی سال سے یہ الزام لگاتے آرہے ہیں کہ جموں و کشمیر ریاست کے مُسلم تشخص کو تبدیل کرنے کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں تاہم اُنکی تشویش کو محض ایک پروپیگنڈہ بتا کر اس سے صرفِ نظر کیا جاتا رہا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ چیزیں یوں صاف ہونے لگی ہیں کہ حکمران جماعت نیشنل کانفرنس سید گیلانی کی تشویش کی شریک دکھائی دینے لگی ہے۔چناچہ نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر اور پارٹی صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے بھائی مصطفیٰ کمال نے کوثر ناگ یاترا کے معاملے سے متعلق گذشتہ سال ایک بیان میں نہ صرف تشویش کا اظہار کیا بلکہ یہاں تک بھی کہا کہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد سے جموں و کشمیر کی شناخت بدل دئے جانے کی سازشیں تیز ہونے لگی ہیں۔ڈاکٹر مصطفی کمال نے کہا ”یہ سب ایک سازش ہے جسکے تحت کچھ فرقہ پرست ذہنیت والے کشمیری ہندو بی جے پی کی مدد سے کشمیر میں لوگوں کے لئے مسائل کھڑا کرنا چاہتے ہیں“۔اتنا ہی نہیں بلکہ کمال کا یہاں تک کہنا ہے”آپ اس طرح کی پیشرفت کو بی جے پی کو ملے عروج سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے ہیں،بی جے پی در اصل جموں و کشمیر کو ہندو رنگ دینے کے درپے ہے اور اس سمت میں سازشیں ہو رہی ہیں“۔اُنہوں نے کہا کہ کروہ عزائم کے لئے قابلِ مذمت انداز میں مذہب کو استعمال کیا جا رہا ہے۔سید علی شاہ گیلانی اور اب مصطفیٰ کمال کس بنیاد پر وثوق کے ساتھ کہ پاتے ہیں اس حوالے سے پہلے پہل کئی لوگ سوالات اُٹھاتے تھے تاہم وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر میں اکثریت کودال میں کالا نظر آنے لگاہے اور پھر اتنا تو ہر لحاظ سے واضح ہو رہا ہے کہ کشمیر میں ”یاتراوں پر سیاست“ہو رہی ہے۔
ویشنو دیوی کے جموں کے مضافات میں کٹرہ کے مقام پر واقع مندر پر ہندووں کی حاضری دینا پُرانا سلسلہ ہے اور وادی کشمیر میں امرناتھ کی یاترا کا قصہ بھی نیا نہیں ہے لیکن امرناتھ یاترا کو جس غیر معمولی شہرت اور غیر ضروری طوالت سے ایک ”عالمی ایونٹ“جیسا ظاہر کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں وہ کئی طرح کے شکوک و شبہات کو جنم دینے کے لئے کافی ہو سکتا ہے وادی میں مندروں کا جال سا بچھانا اور آئے دنوں نئے ”پوِترءمقامات “کی Discoveryجو ہے سو الگ۔جنوبی کشمیر میںواقع دنیا بھر کے سیاحوں کےلئے باعثِ کشش سیاحتی مرکز پہلگام سے کافی آگے ہمالیہ کی گود میں واقعہ امرناتھ گپھا تک ہندووں کی یاترا کا معاملہ گذشتہ کئی سال سے تنازعات سے گھرا رہا ہے۔محض مذہبی نوعیت کی یہ یاترا” جانے انجانے “سیاست کی نذر ہوتی رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ سالانہ سرگرمی اسکی مذہبی نوعیت سے زیادہ دیگر طرح کی خبروں کو جنم دے رہی ہے۔حالانکہ جموں و کشمیر کی علیٰحدگی پسند قیادت اس یاترا کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی مسلح جنگجووں نے ہی کبھی کھلے عام اس یاترا کو نشانہ بنانے کے ارادے ظاہر کئے ہیں تاہم علیٰحدگی پسندوں کا الزام ہے کہ حکومتِ ہند جان بوجھ کر اس مذہبی سرگرمی کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے لگی ہے۔فقط حکومتِ ہند ہی نہیں بلکہ ہنددوں کی شدت پسند مذہبی تنظیمیں بھی کئی سال سے اس یاترا میں ”غیر معمولی“دلچسپی لیتی رہی ہیں۔
سن 1988تک جہاں محض چند سو سادھو سنت ہی امرناتھ گپھا کی مشکل یاترا پر آتے رہے وہیں ریاست میں علیٰحدگی پسند سرگرمی شروع ہونے کے بعد چند سو سادھووں کا قافلہ لاکھوں کے مجمعے میں تبدیل ہوتا گیا۔چناچہ گذشتہ چند سال سے چھ لاکھ یااس سے بھی زیادہ یاتری مذکورہ گپھا میں بھگوان شیو کے ”لنگم“کے درشن کرنے کے لئے وادی وارد ہوتے ہیں۔جیسا کہ ایک سینئر علیٰحدگی پسند لیڈر کا کہنا ہے”ہم یہ نہیں چاہتے ہیں کہ ہندو برادری اس یاترا پر نہ آئے بلکہ ہم ایسا کہنے کی سوچ بھی نہیں سکتے ہیں لیکن ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم اس خالص مذہبی سرگرمی کو کسی بھی طرح کے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہونے دینا چاہتے ہیں“۔وہ کہتے ہیںامرناتھ یاترا جو کبھی محض چند یوم کی سالانہ سرگرمی تھی اب ایک ایسا معاملہ بن گیا ہے کہ وادی کشمیر کا وسیع علاقہ تقریباََ سال بھر کے لئے اس سرگرمی کے لئے یرغمال ہوئے رہتا ہے۔وہ کہتے ہیں”یہ یاترا اب کئی کئی ماہ پر محیط رہتی ہے جبکہ ریاستی سرکار سال بھر اسکے انتظامات کے ساتھ جُڑی رہتی ہے“۔اُنکا مزید کہنا ہے ”آپ جموں سے سرینگر کی جانب آتے ہوئے دیکھ لیجئے کتنے چھوٹے بڑے مندر بنائے گئے ہیں جو کبھی کہیں موجود ہی نہیں تھی،حد یہ ہے کہ جہاں جہاں سکیورٹی فورسز کی چوکیاں قائم ہیں وہاں برلب سڑک مندر کھڑا کئے گئے ہیں تاکہ ایک ایسا تاثر دیا جائے کہ جیسے کشمیر مدتوں سے ہندو اکثریتی علاقہ ہو“۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سال2008میں وادی کشمیر اُس وقت اُبل پڑی تھی کہ جب وقت کی حکومت کی جانب سے امرناتھ شرائن بورڈ کو 800سو کنال جنگل اراضی فروخت کئے جانے کا انکشاف ہوا تھا۔مذکورہ زمین پر ،مبینہ طور،بورڈ کو ایک پختہ شہر کھڑا کرنے کا منصوبہ تھا تاہم کشمیر میں خونین تحریک چلنے کے بعد یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہو پایا تھا۔بعدازاں سپریم کورٹ کی جانب سے امرناتھ گپھا تک نوکدار پہاڑوں پر سے گذرنے والی پگڈنڈی کو پختہ سڑک میں بدل دئے جانے کی ہدایت کے خلاف بھی وادی میں زبردست احتجاج ہوا تھا اور لوگوں نے سیاسی منصوبوں کی تکمیل کے لئے یہاں کے ،بصورتِ دیگر شفاف،ماحول کو تباہ کر دئے جانے کی سازشیں رچانے کا الزام لگایا تھا جنکی ماہرین نے بھی تصدیق کی تھی۔
مقامی لوگوں اور علیٰحدگی پسندوں کا ماننا ہے کہ مذہب کی آڑ میں در اصل بعض طاقتیں کشمیر کو” ہندو دیش“بنانے کے لئے ایسا تاثر دینے کو سازشیں رچا رہے ہیں کہ جیسے یہ ریاست مُسلم اکثریت والی نہ ہو۔حالانکہ کوثر ناگ ہو یا اس طرح کا کوئی دیگر مقام انکے کسی بھی طرح مذہبی مقام ہونے کی کہیں کوئی شہادت نہیں ملتی ہے اور نہ ہی کسی مذہب کی کتابوں میں ہی اس طرح کا کوئی تذکرہ موجود ہے تو پھر کیونکر جھوٹی کہانیاں کھڑا کر کے کشمیر کے ماحول کو تباہ کرنے اور کشمیریوں کے لئے پریشانیاں کھڑا کرنے کے ساماں کئے جا رہے ہیںیہ ایک بڑاسوال ہے۔جیسا کہ مسٹر نندا کے بیان سے اخذ کیا جا سکتا ہے اُن کا منصوبہ فقط کوثر ناگ تک محدود نہیں ہے بلکہ اُنکے بیان میں such locationsکا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔حالانکہ جموں کشمیر کی ماحولیات کے حوالے سے ماہرین ویسے بھی پریشان کن صورتحال کا نقشہ کھینچتے آرہے ہیں۔ان کے مطابق درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کے سبب جموں کشمیر میں واقع گلیشئر دنیا کے دیگر حصوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں، جس کے نتیجے میں آنے والے وقت میں پانی کی شدید قلت ہوگئی اوراگر گلیشئروں کے پگھلنے کی یہی رفتار رہی تو کشمیر کے لہلاتے کھیت بنجروں میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔چند سال پہلے کشمیر یونیورسٹی کے ماہرین کی ایک ٹیم نے انکشاف کیا تھا کہ گزرے40برس کے عرصے مشہور برفانی ذخیرہ ”کولہائی گلیشئر“ کا18فیصدحصہ کم ہوگیا ہے جبکہ لداخ خطے کے کرگل ضلع میں72مربع کلومیٹررقبہ پر مشتمل دریا سورو کے طاس میںکم و بیش300 گلیشئرموجود ہیں جن کا16فیصد حصہ پگھل گیا ہے۔ مجموعی طورریاست کے گلیشئرسالانہ0.8مربع کلومیٹر کی شرح سے پگھل رہے ہیں۔
ایک طرف ماحوالیات کے حوالے سے یہ خدشات تو دوسری جانب اس طرح کی سرگرمیاں ایک ایسے وقت پر ہورہی ہیں کہ جب آر ایس ایس نے جموں و کشمیر میں غیر ریاستیوں کو نوکری پانے ،ووٹ دینے یا جائیداد حاصل کرنے سے روکنے والی آئینِ ہند کی دفعہ35Aکو سپریم کورٹ میں چلینج کیا ہوا ہے۔دلچسپ اور چونکا دینے والی بات ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے اس سلسلے میں ریاستی سرکار سے نومبر تک عذرات طلب کئے ہوئے ہیں۔ظاہر سی بات ہے کہ یہ ساری صورتحال ایک ساتھ دیکھی جائے تو کشمیریوں کے لئے ایک پریشان کردینے والی تصویر اُبھر کے سامنے آجاتی ہے۔
سب سے اہم بات یہ کہ پہلے دفعہ370کو ختم کر دئے جانے کے منصوبوں،دفعہ35Aکے خلاف قانونی جنگ اور کشمیر کی Demographyمیں تبدیلی کے خدشات کا ایک ایسے وقت پر اظہار ہو رہا ہے کہ جب ایک طرف فلسطین میں اسرائیل کی بر بریت انتہا کو پہنچ چکی ہے اور بعض لوگ کشمیریوں کو فلسطین ہوجانے سے بچنے کی تدابیر پر سوچنے کے لئے کہ رہے ہیں تو دوسری جانب القائدہ اور آئی ایس آئی ایس (ISIS)جیسی جماعتوں کے لئے،مٹھی بھر ہی سہی،کشمیری نوجوان اظہارِ محبت کرتے دیکھے جارہے ہیں۔دلچسپ ہے کہ ٹیلی ویژن چینل کشمیر میں آئی ایس آئی ایس کے جھنڈے لہرائے جانے پر واویلا تو مچاتی ہیں لیکن ایک بار بھی کشمیریوں کے اذہان و قلوب میں دیمک کی طرح پل رہے خدشات کو دور کئے جانے کی باتیں نہیں ہوتیں۔اُنکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر ایک مبصر کا کہنا ہے”لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے فرقہ پرستی کے اُبھار اور مذہبی جنون کو ہتھیار کے بطور استعمال کرکے اسے اپنے لئے ثمر آور پایا ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے لئے بھی انہی ہتھیاروں کو آزمانا چاہتی ہو لیکن اسے یاد رکھنا ہوگا کہ کشمیر اور مظفر نگر میں بہت فاصلہ ہے“۔وہ کہتے ہیں”جموں کشمیر میں ابھی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ملی ٹینسی کا نیا دور دیکھا جارہا ہے اُس کے تار کہیں نہ کہیں انہی جیسے خدشات سے مل رہے ہیں،آج کے کشمیر کا سچ یہی ہے کہ سید گیلانی تو تھے ہی اب یہاں کی وہ جماعتیں بھی خدشات کا شکار ہوگئی ہیں کہ جو انتخابات لڑتی ہیں اور کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ جوڑی ہوئی ہیں“۔جموں کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے والے شیخ عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس کے ایک لیڈر نے مذکورہ مبصر کو یہ کہتے ہوئے درست ٹھہرایا”یقیناََ ہم جیسے لوگ بھی خدشات کا شکار ہوگئے ہیں،ہمیں لگتا ہے کہ جموں کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو بگاڑنے کی واقعتاََ کوششیں ہورہی ہیں جو وقت رہتے نہ رُکیں تو بہت تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں“۔(بشکریہ عالمی سہارا،دلی)
(یہ مضمون پہلے ستمبر ٢٠١٥ کو شائع ہوا تھا)