جموں کشمیر میں ڈیڑھ سال بعد تیز رفتار انٹرنیٹ کی بحالی کے کچھ ہی دنوں بعد یہاں کی پولس نے انٹرنیٹ پر لوگوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کیلئے رضاکاروں کی بھرتی کیلئے درخواستیں طلب کی ہیں۔پولس کا کہنا ہے کہ یہ اقدام انٹرنیٹ کی دُنیا میں ہونے والے جرائم کو کم کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے تاہم عام لوگوں کو طرح طرح کے خدشات لاحق ہو گئے ہیں۔
’’اب جب سب کچھ ڈیجیٹل ہوگیا ہے پولس نے مخبروں کو بھی ڈیجیٹل کردیا‘‘۔
پولس نے چند روز قبل ایک سرکیولر جاری کرکے ’’رضاکاروں‘‘ کے بطور بھرتی ہونے کے خواہشمندوں سے،سائبر والنٹئیر ان لا فُل کنٹنٹ فلیگر،سائبر اویرنس پروموٹر اور سائبر ایکسپرٹ کے، تین زمروں میں درخواستیں طلب کی ہیں۔ان تینوں طرح کے رضاکاروں کا بنیادی کام انٹرنیٹ پر کہیں بھی تخلیق کئے جارہے یا پھیلائے جارہے ’’ غیر قانونی‘‘ مواد یا سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہوئے پولس کو ہوشیار کرنا ہے۔حالانکہ پولس کا دعویٰ ہے کہ ان رضاکاروں کے ذرئعہ آن لائن ہونے والے ہر طرح کے جرائم ،جیسے بچوں کی فحش تصاویر یا ویڈیو بنانے،زنا بالجبر،اجتماعی عصمت ریزی،دہشت گردی اور ملک دشمن سرگرمیوں،کو قابو کرنے میں مدد ملے گی تاہم اس اقدام کے ناقدین کو شک ہے کہ یہ سب اختلافی آوازوں کو دبانے کیلئے کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر پولس کی جانب سے رضاکاروں کی اس بھرتی پر بہت زیادہ بحث و مباحثہ نہیں ہوا تاہم کئی لوگوں نے مزاحیہ انداز میں لکھا ’’اب جب سب کچھ ڈیجیٹل ہوگیا ہے پولس نے مخبروں کو بھی ڈیجیٹل کردیا‘‘۔فیس بُک پر ایک شخص نے یوں ایک مختصر جملے میں اپنا تبصرہ درج کیا ’’ای (الیکٹرانک) مخبر ،اب بس یہی باقی تھا‘‘۔ ایک اور شخص نے فیس بُک پر ہی لکھا ’’دیکھئے اس اہم مسئلے پر کوئی بات کرنے سے بھی ڈرتا ہے جس سے عیاں ہے کہ ہم پہلے سے کتنے سہمے ہوئے اور خوفزدہ ہیں اور اب جب نام نہاد رضاکار بھی کام پر لگائے جائیں تو اندازہ لگایئے کہ اظہارِ رائے کے حق کا کیا ہوگا‘‘۔
جموں کشمیر ہائی کورٹ کے ایک نوجوان وکیل نے ،اُنکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر ،بتایا ’’پولس یا دیگر سرکاری ایجنسیاں کچھ بھی کہیں لیکن یہ سب اختلافی آوازوں کو دبانے کے حربے ہوتے ہیں،ہمارے یہاں تو ویسے بھی اظہارِ رائے کی آزادی کا حق نہیں تھا اب بااالکل ہی اسکا تصور نہیں کیا جاسکے گا‘‘۔ اُنہوں نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد لوگوں کو خوفزدہ کئے رکھنا ہے اور لوگ ’’واقعتاََ ایسے اقدامات سے ڈرتے ہیں‘‘۔ پیشہ ور مزاح نگار منور فاروقی کی حالیہ گرفتاری کی مثال دیتے ہوئے مذکورہ وکیل نے کہا ’’فاروقی کے مطابق اُنہوں نے وہ سب کہا بھی نہیں تھا کہ جسکے لئے اُنہیں مہینہ بھر جیل میں کاٹنا پڑا،پھر وہ ایک معروف اور پیشہ ور کامیڈئن ہیں،ایسے میں کسی عام انسان کو کیوں جیل جانے کا ڈر نہیں رہے گا‘‘۔
’’میں نے اپنے بیٹے کو انٹرنیٹ کا استعمال رد کرنے پر آمادہ کرنے کیلئے اُسے اُسکی من پسند بائک دلانے کا وعدہ کیا ہے۔نئے قوانین یقیناََ پریشان کُن ہیں اور پھر کشمیر میں ہم نے ذاتی رنجشوں یا دیگر مفادات کیلئے معصوموں کو خونخوار دہشت گردوں کے بطور پیش کئے جاتے دیکھا ہے‘‘
پولس نے رضاکاروں کی بھرتی کے اس عمل کے بارے میں بہت زیادہ وضاحت نہیں کی ہے تاہم ایک افسر نے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ کہا ’’جو لوگ انٹرنیٹ کو کسی غلط مقصد سے استعمال نہیں کرنا چاہتے ہوں اُنہیں ڈر کیسا؟‘‘۔ اُنہوں نے کہا کہ رضاکاروں کی بھرتی کا یہ عمل دراصل مرکزی وزارتِ داخلہ کی پالیسی کے تحت کیا جارہا ہے۔اُںہوں نے کہا کہ رضاکاروں کو کسی قسم کا معاوضہ یا مشاہرہ نہیں ملے گا اور نہ وہ کھلے عام اس کام کے ساتھ وابستہ ہونے کا اعلان کرسکیں گے بلکہ وہ پوری طرح خفیہ طور سرگرم رہیں گے۔ مذکورہ افسر نے دعویٰ کیا کہ جموں کشمیر میں انٹرنیٹ کو ’’بنیاد پرستی‘‘ پھیلانے کیلئے استعمال کئے جانے کے شواہد ملتے رہے ہیں البتہ جو لوگ تعلیمی،تفریحی یا تجارتی مقاصد تک محدود رہیں گے اُنہیں کسی بھی قانون سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
تاہم عام لوگوں میں خدشات ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ نام نہاد رضاکار ذاتی رنجش یا اس طرح کے مفادات کیلئے پولس کے ساتھ اپنی وابستگی کا غلط استعمال کرکے بے گناہوں کا شکار کرسکتے ہیں۔اسی طرح کے خدشہ کا اظہار کرتے ہوئے بشیر احمد نامی ایک شخص نے کہا ’’میں نے اپنے بیٹے کو انٹرنیٹ کا استعمال رد کرنے پر آمادہ کرنے کیلئے اُسے اُسکی من پسند بائک دلانے کا وعدہ کیا ہے۔نئے قوانین یقیناََ پریشان کُن ہیں اور پھر کشمیر میں ہم نے ذاتی رنجشوں یا دیگر مفادات کیلئے معصوموں کو خونخوار دہشت گردوں کے بطور پیش کئے جاتے دیکھا ہے‘‘۔