سابق ریاست جموں کشمیر کی ’’آئین ساز اسمبلی‘‘ کے آخری رُکن،بزرگ کمیونسٹ لیڈر اور معروف کالم نویس کرشن دیو سیٹھی کا 93 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا۔بزرگ لیڈر اُس کمیٹی کے آخری زندہ رُکن تھے کہ جنہوں نے جموں کشمیر کا آئین بنایا تھا۔
سیٹھی کے خاندان کی جانب سے جمعرات کی صبح جونہی اُنکے انتقال کی خبر دی تو سوشل میڈیا پر تعزیتی بیانات کا سیلاب آیا اور کئی لوگوں نے اسے ’’ایک دور کا اختتام‘‘ بتایا۔موجودہ دور میں بزرگ لیڈر کو ایک سیاستدان سے زیادہ ایک کالم نویس کے بطور جانا جاتا تھا کہ وہ سرینگر سے شائع ہونے والے ایک اُردو اخبار میں متواتر کالم لکھتے آرہے تھے۔
‘‘اب کون لکھئے گا نفرتوں کے جہاں میں وہ محبت نامے ’’
کرشن دیو سیٹھی پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر کے میر پور میں پیدا ہوئے تھے تاہم انہوں نے 1946میں ہجرت کرکے جموں میں مسکن بنالیا تھا جہاں ایک بیٹے اور بیٹی کو سوگوار چھوڑ کر وہ آج انتقال کر گئے۔خاندانی ذرائع نے بتایا کہ بزرگ لیڈر کی آخری رسومات جوگی گیٹ جموں میں ادا کی گئیں اور یہیں اُنہیں نذرِ آتش کیا گیا۔اُنکے انتقال پر سماج کے مختلف طبقات نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے اُنکے چلے جانے کو ایک دور کا اختتام بتایا۔ دلچسپ ہے کہ مسلم اکثریت والی وادیٔ کشمیر میں کئی لوگ سیٹھی کے انتقال پر رنج و غم کا اظہار کرتے پائے گئے۔ایک نوجوان عالمِ دین اور مضمون نگار الطاف جمیل ندوی نے سیٹھی کے انتقال پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے فیس بُک پر لکھا ’’ اب کون لکھئے گا نفرتوں کے جہاں میں وہ محبت نامے۔#کرشن دیو سیٹھی‘‘۔
سینئر صحافی ظفر معراج نے بھی فیس بُک پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ سیٹھی انسانیت اور جمہوریت پر یقین رکھنے والی قوتوں کا سرمایہ تھے۔ظفر معراج نے لکھا ’’وہ (سیٹھی صاحب)ہمیشہ ہی دبائے ہوئے کشمیریوں کیلئے کھڑا رہے‘‘۔کئی عام لوگوں نے،جو بزرگ لیڈر کے کالم پڑھتے رہے ہیں،بھی رنج و غم کا اظہار کیا جبکہ متعدد کا کہنا تھا کہ اُنکا انتقال کر جانا اردو کیلئے ایک بڑا نقصان ہے۔