ایک جدید اور ریسپانسیو ویب سائٹ کے ذرئعہ ’’ملک بھر میں پہلے آن لائن میڈٰکل بلاک کا اعزاز‘‘ پانے والے میڈیکل بلاک لنگیٹ کی ویب سائٹ عرصہ ہوئے بند ہوگئی ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ معمولی رقم کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے بلاک نے ’’بی ایم او لنگیٹ ڈاٹ کام‘‘کا ڈومین بھی کھو دیا ہے جو سہل اور زبان زد عام تھا۔
2017 میں اُسوقت کے ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کشمیر ڈاکٹر سلیم الرحمٰن نے میڈیکل بلاک لنگیٹ کی ویب سائٹ www.bmolangate.com کا افتتاح کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ میڈیکل بلاک سارے ملک میں آن لائن ہونے والا پہلا بلاک بن گیا ہے ۔اُنہوں نے اس بات کیلئے اُسوقت کے بلاک میڈٰکل آفیسر (بی ایم او) ڈاکٹر نذیر احمد کی بڑی تعریفیں کی تھیں اور کہا تھا کہ مذکورہ نے اس منصوبہ کے ذرئعہ اپنے دفتر کو ایک منفرد مقام دلوایا ہے۔اگلے دن سرینگر اور جموں سے شائع ہونے والے سبھی اخباروں نے اس خبر کو جلی حروف میں شائع کیا تھا۔
مذکورہ ویب سائٹ جدید ترین سہولیات سے لیس اور ریسیانسیو ہونے کی وجہ سے کسی بھی ڈیوائس پر بہ آسانی دستیاب تھی اور اس میں کافی ڈیٹا دستیاب ہونے کے علاوہ اسپتال آنے سے قبل رجسٹریشن کروانے کی سہولت تک موجود تھی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر نذیر احمد کے اس بلاک میں تعینات رہنے تک یہ ویب سائٹ بخوبی اپڈیٹ ہوتی رہی تاہم اُنکے تبادلہ کے بعد پہلے اسے اپڈیٹ کیا جانا بند ہوا اور پھر آہستہ آہستہ یہ سائٹ بند ہوگئی۔
اس ویب سائٹ کی تخلیق کار کمپنی ایکمو سوفٹ کا کہنا ہے کہ ہوسٹنگ اور دیگر اخراجات کی ادائیگی نہ کئے جانے کے بعد ویب سائٹ بند ہوگئی ہے۔ کمپنی کے ڈائریکٹر داوؤد وانی نے کہا ’’اُسوقت کے بی ایم او نے اس منصوبے میں بڑی دلچسپی لی تھی،وہ کئی دن ہماری ٹیم کے ساتھ لگاتار رابطے میں رہے یہاں تک کہ ایک اچھی ویب سائٹ بن گئی جسکا تذکرہ میڈیا میں بھی ہوا۔کچھ وقت بعد اس ویب سائٹ کی اپڈیشن رُک گئی اور پھر ہماری بار بار کی یاد دہانی کے باوجود بھی ہوسٹنگ اور دیگر چارجز ادا نہ ہوئے یہاں تک کہ بی ایم او کے دفتر سے صاف بتایا گیا کہ اس ویب سائٹ کو جاری رکھنے میں اُنکی کوئی دلچسپی نہیں ہے‘‘۔ وانی کے مطابق اسکے بعد ویب سائٹ بند ہی نہ ہوئی بلکہ اسکا ڈاٹ کام ڈومین بھی چلا گیا۔اُنکا کہنا ہے کہ یہ دس ہزار روپے سے بھی کم سالانہ کی بات تھی تاہم محکمۂ صحت یہ معمولی خرچہ برداشت نہ کرسکا۔
محکمۂ صحت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سمیر متو کے ساتھ رابطے کی سبھی کوششیں رائیگاں ہوگئیں جبکہ نچلی سطح پر کئی افسروں نے بات تو کی تاہم اُنہوں نے معاملے سے پوری طرح بے خبر ہونے کا دعویٰ کیا۔