مرحوم ڈاکٹر غلام احمد ریشی برین نشاط کے رہنے والے تھے سلّر کے شفاخانہ میں کئی سال تعینات رہنے کے دوران ان سے میری اچھی دوستی ہوگئی تھی۔ڈاکٹر صاحب اکثر ہمارے گھر آیا کرتے تھے اُنکا وطیرہ بھی اچھا تھا جسکے چلتےعام لوگ بھی انسے متاثر تھے۔
سلّر سے تبدیلی کے بعد ہی ان کی شادی ہوئی۔ مجھے بھی مدعو کیاگیا، تحفہ یا دسبوسہ پیش کرنے کی کوئی پابندی تو نہیں تھی لیکن میں اس کے بغیر جانا معیوب سمجھ بیٹھا۔ کیا لیجاٶں۔۔۔! کیا پیش کرٶں۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
کافی دیر تک اس مخمصے میں رہنے کے بعد آخر کار مولانا نعیم صدیقی کی مرتب کردہ سیرتِ پاک ”محسن انسانیت“ کی ایک جلد دس روپے کے ہدیہ پر حاصل کرکے بصدِ احترام اخبار میں لپیٹ کے ، دھاگے سے باندھکر، دولہے کو پیش کردی۔ دولہے نے بھی بصدِ احترام تحفہ قبول کیا اور اپنے بڑے بھائی کے حوالے کردیا۔
کتاب کے پہلے ، اندرونی ورق پر میں نے اپنا نام اور تاریخ درج کی تھی جس سے پڑھنے والا آسانی سے سمجھ لیتا کہ تحفہ کس شخص کا پیش کردہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی شادی کے دو ایک سال کے بعد میں چشمہ شاہی کے سرکاری ڈیری فارم میں ڈاٸری ساٸنس کورس کر رہا تھا۔ایک دن ڈاکٹر صاحب سے اچانک ملاقات ہوئی۔
دسبوسہ پیش کرنے کی کوئی پابندی تو نہیں تھی لیکن میں اس کے بغیر جانا معیوب سمجھ بیٹھا۔ کیا لیجاٶں۔۔۔! کیا پیش کرٶں۔۔۔کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
جمعہ کا دن تھا اور میں نماز اداکرنے کے بعد امیراکدل سے، بذرئعہ بس ،چشمہ شاہی جارہا تھا۔ میرے ساتھ میری مرحومہ ہمشیرہ اور ایک بھانجی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب ایک نہ مانے،انکے گھر آنے کیلئے مجبور کیا،گھر پر خوب مہمان نوازی کی۔ میری ہمشیرہ اور بھانجی کو گھر پر روک لیا اور میں اکیلے ہی چشمہ شاہی کیلئے روانہ ہوگیا۔
چشمہ شاہی میں میرے کمرے سے دو ایک دن پہلے میری ایک چادر اور کچھ کپڑے وغیرہ چرائے جا چکے تھے جس کا سر سری ذکر ڈاکٹر صاحب سے ہوا تھا۔چناچہ میرے چشمہ شاہی پہنچتے ہی پولس کی ایک گاڑی نمودار ہوئی۔۔۔۔معلوم ہوا کہ پولس ڈاکٹر صاحب کی اطلاع پر مالِ مسروقہ کی تلاش میں آئی ہوئی تھی۔ پولس دیکھ کر ڈائری فارم والے سہم گئے یہاں تک کہ انہوں نے جوری شدہ اشیاٗ کی قیمت ادا کرنے کا وعدہ کیا، اگرچہ وہ وعدہ بعد میں پورا نہ ھوا۔
شادی پر سینکڑوں لوگ آ ئے۔سب نے دسبوسہ دیا ، لیکن آپکا تحفہ جو اثر کر گیا اسکی کوئی مثال نہیں ملتی۔ہمارا دینی تصور بالکل مختلف تھا
ڈاکٹر صاحب کے گھر سے ہمشیرہ اور بھانجی کو واپس لے آنے کے وقت انکے برادرِ اکبر،جو خود بلاک ڈیولوپمنٹ افسر (بی ڈی او) تھے، سے ملاقات ہونے پر ایک دلچسپ انکشاف ہوا۔باتوں باتوں میں انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی شادی پر میرے پیش کردہ تحفہ (محسنِ انسانیت) کا تذکرہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ شادی پر میرا پیش کردہ بیش قیمت تحفہ ایسا اثر کر گیا ہےکہ عمر بھر یاد رہیگا۔ انہوں نے یوں اپنے تاثرات بتائے ’’شادی پر سینکڑوں لوگ آ ئے۔سب نے دسبوسہ دیا ، لیکن آپکا تحفہ جو اثر کر گیا اسکی کوئی مثال نہیں ملتی۔ہمارا دینی تصور بالکل مختلف تھا‘‘۔