اب جبکہ کووِڈ19- کی وجہ سے ایک طرف اسپتالوں میں جگہ کم پڑ رہی ہے اور دوسری جانب انفکشن لگنے کے ڈر سے بعض مریض ان شفاخانوں میں جانے سے کترا رہے ہیں،کشمیر میں کئی مساجد نے ایک منفرد پہل کی ہے۔ان مساجد نے انکے ساتھ منسلک بیوت المال کے مصارف کی ترجیحات بدل کر ضرورتمند مریضوں کو انکے گھروں میں آکسیجن وغیرہ فراہم کرنے کا کام شروع کرکے ان مریضوں کو نئی زندگی کی امید دلائی ہے۔
جموں کشمیر خالصتاََ ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور یہاں چھوٹی بڑی ہزاروں مساجد ہیں جن میں ہر ہفتے غرباٗ و مساکین کیلئے باضابطہ چندہ جمع کرکے مقامی حاجتمندوں کی امداد کی جاتی ہے
کئی مساجد کے منتظمین کا کہنا ہے کہ کووِڈ19- سے قبل وہ ضرورتمند افراد یا خاندانوں کی نقد امداد کو ترجیح دیتے تھے لیکن موجودہ حالات میں مہنگی ادویات اور طبی آلات سے زیادہ کوئی اہم ضرورت نہیں ہے۔جنوبی کشمیر کے اننت ناگ ضلع کے ایک چھوٹے قصبہ کے مکین نذیر احمد (یہ اُنکا فرضی نام ہے) نے بتایا ’’موجودہ حالات میں آُ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف اسپتالوں میں جگہ کم پڑ رہی ہے تو دوسری جانب بڑی عمر والے کئی مریض انفکشن لگ جانے کے ڈر سے اسپتالوں کا رُخ کرنے پر آمادہ نہیں ہیں،ایسے میں ہم نے سوچا کہ ہمیں مسکینوں کی امداد پر مریضوں کی امداد کو ترجیح دینی چاہیئے‘‘۔انہوں نے کہا کہ اس سوچ سے انہوں نے علاقہ کے کئی طبی ماہرین کے ساتھ مشورہ کیا اور آکسیجن کنسنٹریٹر وغیرہ جیسے آلات خرید لئے جن سے علاقہ کے حاجتمند مریضوں کو بڑی راحت مل رہی ہے۔
کووِڈ19- کی وجہ سے باقی دنیا کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر میں بھی افراتفری کا ماحول ہے اور یہاں ابھی تک کُل مریضوں کی تعداد اسی ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے جبکہ اس بدترین بیماری کے بہانے فوت ہونے والوں کی تعداد بارہ ہزار سے تجاوز کر رہی ہے۔ایسے میں سب سے پہلے سرینگر کے بٹہ مالو علاقہ میں قائم ’’اتھہ روٹ‘‘ یا مدد نام کی فلاحی تنظیم نے آگے آکر 225 آکسیجن کنسنٹریٹر خرید لئے جنہیں ضرورتمند بیماروں کو محض پچاس روپیہ فی یوم کے حساب سے فراہم کیا جاتا ہے اور وہ گھر بیٹھے بیٹھے اپنا علاج کروا پاتے ہیں۔ اتھہ روٹ کی پالیسی تاہم اسے یہ سہولت سرینگر شہر کے اندر اندر فراہم کرنے کی اجازت دیتی ہے جبکہ ان سہولیات کے حاجتمند مریضوں کی موجودگی پورے جموں کشمیر میں ہے۔چناچہ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کووِڈ19-کے مریضوں کا ایک بڑا مسئلہ انکے خون میں آکسیجن کی سطح کے کم ہونے کا ہے لہٰذا ایک ساتھ کئی لوگوں کو مصنوعی طور آکسیجن پہنچائے جانے کی ضرورت بڑ گئی ہے۔ایسے میں اتھہ روٹ سے سیکھ کر سرینگر سے باہر کی کئی مساجد نے اس انتظام کو اپنی فلاحی سرگرمیوں میں ترجیحی طور شامل کر لیا ہے۔
’’ہم نے ابھی تک سات آکسیجن مشینیں (کنسنٹریٹر) خرید لی ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ کئی نیوبلائزر بھی لئے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے یہاں کا کوئی شخص ان سہولیات کی عدم دستیابی کے بہانے نہ مرے،میرے خیال میں غرباٗ و مساکین کے کھانے پینے کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات میں ان طبی سہولیات کا خیال رکھنا زیادہ ضروری ہے اور ایسا شہروں اور قصبوں میں ہی نہیں بلکہ گاؤں کی سطح پر بھی کیا جانا چاہیئے‘‘۔
بجبہاڑہ اننت ناگ کی ایک مسجد کے منتظم نے کہا ’’ہم نے ابھی تک سات آکسیجن مشینیں (کنسنٹریٹر) خرید لی ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ کئی نیوبلائزر بھی لئے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے یہاں کا کوئی شخص ان سہولیات کی عدم دستیابی کے بہانے نہ مرے،میرے خیال میں غرباٗ و مساکین کے کھانے پینے کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات میں ان طبی سہولیات کا خیال رکھنا زیادہ ضروری ہے اور ایسا شہروں اور قصبوں میں ہی نہیں بلکہ گاؤں کی سطح پر بھی کیا جانا چاہیئے‘‘۔سرینگر کے پائین شہر میں بھی کئی مساجد کمیٹیوں نے یہ سہولیات حاصل کر لی یا پھر وہ ان سہولیات کے حصول کیلئے کوشاں ہیں۔
سرینگر کے صدر اسپتال واقع کاک سرائے کرن نگر کے باہر طبی آلات کی سپلائی کا کام کرنے والی ایک فرم کے ملازم عبدالمجید نے کہا ’’یہ خوشگوار حیرت کی بات ہے کہ کچھ عرصہ سے کئی مساجد کمیٹیاں ہمارے یہاں آکسیجن کنسنٹریٹر اور ڈائیالسیز مشینوں وغیرہ کی طلب لیکر آتی ہیں ۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مفت یا انتہائی قلیل فیس پر اپنے یہاں یہ سہولیات دستیاب رکھنا چاہتے ہیں اور ہم بھی اس مقدس مقصد کیلئے انہیں رعایتی نرخوں پر سامان فراہم کرتے ہیں،میرے خیال میں یہ ایک اچھی کوشش ہے اور اسکی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیئے‘‘۔
جموں کشمیر خالصتاََ ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور یہاں چھوٹی بڑی ہزاروں مساجد ہیں جن میں ہر ہفتے غرباٗ و مساکین کیلئے باضابطہ چندہ جمع کرکے مقامی حاجتمندوں کی امداد کی جاتی ہے اور اب اگر طبی ضروریات بشمولِ ادویات کی فراہمی کو ایک باضابطہ سلسلہ بنایا جائے تو سرکاری اسپتالوں پر سے کسی حد تک بوجھ کم ہوسکتا ہے اور ضرورتمند مریضوں کی بڑی مدد ہوسکتی ہے۔
بشکریہ ایس این بی