جموں کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ کو آج باالآخر آٹھ ماہ کی نظربندی کے بعد رہا کیا ہے اور وہ گھر پہنچ کر ،کرونا وائرس کی وجہ سے،تنہائی میں چلے گئے ہیں۔عمر عبداللہ ،جنہیں گئے سال5اگست کو جموں کشمیر ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کرنے اور دفعہ 370کی منسوخی سے قبل دیگر سینکڑوں سیاسی کارکنوں، وکیلوں اور عام نوجوانوں کی طرح گرفتار کیا گیا تھا،کی رہائی سپریم کورٹ کی جانب سے سرکار سے وضاحت طلب کئے جانے کے ہفتہ بھر بعد روبہ عمل آئی ہے۔سپریم کورٹ نے عمر عبداللہ کی بہن کی درخواست کے ردعمل میں سرکار سے یہ وضاحت دینے کیلئے کہا تھا کہ آیا وہ عمر کو رہا کرنے کا کوئی منصوبہ رکھتی بھی ہے کہ نہیں۔
دوپہر کے قریب سرکاری ترجمان روہت کنسل نے ایک ٹویٹ کے ذرئعہ عمر عبداللہ کی رہائی کا اعلان کیا۔انہوں نے لکھا”سرکار نے شری عمر عبداللہ کی نظربندی کا فیصلہ واپس لے لیا ہے“۔اس سے قبل تین بار سابق ریاست کے وزیرِ اعلیٰ رہ چکے انکے والد فاروق عبداللہ کو رہا کیا گیا تھا۔حالانکہ فاروق عبداللہ کی رہائی کے بارے میں خفیہ ایجنسی آئی بی اور راءکے اعلیٰ عہدیدار رہے اے ایس دُلت نے اشاروں اشاروں میں کہا ہے کہ یہ رہائی انکی کوششوں کا نتیجہ ہے تاہم عمر عبداللہ کو بظاہر سپریم کورٹ کے دباو¿ اور کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا شدہ صورتحال کی وجہ سے رہا کیا گیا ہے۔ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا ان سے وہ معاہدہ لیا گیا ہے کہ جس پر دستخظ کرنے پر وہ،اطلاعات کے مطابق، ابھی تک آمادہ نہیں ہورہے تھے۔واضح رہے کہ مین اسٹریم پارٹیوں کے کئی لوگوں کے بارے میں خبر ہے کہ انہیں اس معاہدے پر رہا کیا گیا ہے کہ وہ دفعہ370کی تنسیخ اور سابق ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں باٹ دئے جانے پر عوام میں جاکر کوئی تنقید نہیں کریں گے اور چُپ رہیں گے۔
عام حالات میں مسٹر عبداللہ کی رہائی پر انسے کئی سوال پوچھے جاسکتے تھے اور اگر وہ بغاوت پر آمادہ ہوتے تو سرکار کیلئے مسئلہ بن سکتا تھا تاہم ابھی جبکہ کرونا وائرس نے دنیا کے سامنے بقا کا مسئلہ پیدا کیا ہے سیاسی معاملات ”غیر اہم“ہوگئے ہیں۔
عمر عبداللہ نے مذکورہ بالو دونوں اہم فیصلوں سے قبل ”افواہوں“کے ردِ عمل میں ایسی کسی بھی ”جسارت“کے خلاف مزاحمت کرنے کی دھمکیاں دی تھیں تاہم اب یہ واضح نہیں ہے کہ آٹھ مہینوں کی نظربندی کے بعد انکا موقف کیا ہوگا۔فاروق عبداللہ نے گذشتہ دنوں اپنی رہائی کے موقعہ پر یہ کہکر کوئی سیاسی بیان دینے سے انکار کردیا تھا کہ جب تک عمر عبداللہ اور پی ڈی پی صدر و سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو بھی رہا نہیں کیا جاتا وہ کچھ نہیں کہیں گے اور آج جب عمر عبداللہ رہا ہوئے تو انہوں نے بھی کوئی سیاسی بیان دینے سے گریز کیا۔تاہم ٹویٹر پر انہوں نے ”ہلکے انداز میں“اپنی نظربندی کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آٹھ ماہ نظربند رہنے کے دوران انہیں تجربہ ہوا ہے اور قرنطینہ میں رہنا ان سے سیکھا جاسکتا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ چونکہ عمر عبداللہ کو ایسے وقت پر رہا کیا گیا ہے کہ جب کرونا وائرس نے سیاست اور دوسری ساری چیزوں کو پسِ منظر میں کردیا ہے اور یہ بات بی جے پی سرکار کے ساتھ ساتھ خود عمر عبداللہ کیلئے بھی مفید ہے۔ان مبصرین کا کہنا ہے کہ عام حالات میں مسٹر عبداللہ کی رہائی پر انسے کئی سوال پوچھے جاسکتے تھے اور اگر وہ بغاوت پر آمادہ ہوتے تو سرکار کیلئے مسئلہ بن سکتا تھا تاہم ابھی جبکہ کرونا وائرس نے دنیا کے سامنے بقا کا مسئلہ پیدا کیا ہے سیاسی معاملات ”غیر اہم“ہوگئے ہیں۔کرونا وائرس نے زندہ چھوڑا تو تب تک معاملہ آیا گیا ہوگیا ہوگا اور بھاجپا سرکار کے ساتھ ساتھ عمر عبداللہ کیلئے بھی صوتحال کو سنبھالنا آسان ہوگیا ہوگا،تب تک گھر بیٹھے باپ بیٹے ”نئی سیاست“کا خاکہ بھی تیار کرسکیں گے۔