مہند// (محمد سہیل) بجبہاڑہ اور سریگفوارہ کے دو مشہور قصبہ جات کے درمیان میں سیب کاشتکاروں کا گاوں مہند بارہ سال بعد تب فوج اور سرکاری فورسز کی نظروں میں دوبارہ آگیا تھا کہ جب مئی میں یہاں کے ایک ثروت مند گھر کے بیٹے اورعلاقے کے بہترین کرکٹر شبیر احمد میر نے فوجی وردی میں ملبوس اپنی تصاویر فیس بُک پر ڈالکر اپنے جنگجو بننے کا اعلان کیا۔علاقے میں ”میکسویل“کی عُرفیت سے پہچانے جانے والے شبیر کے پاس عیش کا ہر سامان دستیاب ہونے کی وجہ سے اُنکے دوست و احباب ابھی تک اُنکے جنگجو بننے یقین بھی نہیں کرپارہے تھے شبیر اپنا سر اور ملی ٹینسی کے نقشے سے مہند کا نام دونوں کٹوا آئے۔وہ اپنے ایک ساتھی شارق احمد سمیت اتوار کی صبح کو پلوامہ ضلع کے ٹہب میں سرکاری فورسز کے ساتھ ایک مختصر جھڑپ میں مارے گئے۔
”جب اُس نے پہلی لڑکی کو رد کردیا تو ہمیں لگا کہ اُسے لڑکی پسند نہیں آئی ہے لیکن جب اُس نے دوسری لڑکی کیلئے بھی منع کیا تو میں نے اُسے ڈانٹنا چاہا جسکے جواب میں اُس نے یہ کہکر ہمیں ششدر کردیا کہ وہ ایسے میں کیا شادی رچائیں گے کہ جب آس پاس اتنے بے گناہ اور معصوم (سرکاری فورسز کے ہاتھوں) مارے جارہے ہوں“۔
حالانکہ ایک زمانے میں وادی کشمیر کے دیگر کسی بھی علاقہ کی طرح گاوں کے کئی جنگجو سرگرم تھے تاہم 2005میں یہاں کے آخری جنگجو ارشد حُسین کے جاں بحق ہونے کے بعد یہاں کسی نے جُرات نہ کی یہاں تک کہ شبیر عرف شوکت میدان میں آگئے۔وہ تاہم بہت دیر کیلئے نہ ٹِک سکے اور یوں مہند کا علاقہ پھر سے سرکاری ایجنسیوں کے راڈار سے ہٹ گیا۔
شبیر کو کرکٹ کھیلتے دیکھتے رہے اُنکے جاننے والوں کو اُنکے اسٹائل میں معروف آسٹریلیائی کھلاڑی ”میکسویل“کی جھلک نظر آئی تھی،تبھی تو اُنہوں نے شبیر کو ”میکسویل“کا لقب دیا ہوا تھا اور یہ اس حد تک مقبول ہوچکا تھا کہ علاقے میں میکسویل کا نام لینے پر وضاحت لازمی ہوگئی تھی کہ بات آسٹریلیائی کھلاڑی کی ہورہی ہے یا پھر مقامی میکسویل کی۔
شبیر کی علاقے میں میکسویل کے اسٹائل کے کرکٹر کے علاوہ ایک اور پہچان بھی تھی….ایک خوشحال اور پر طعیش زندگی گذارنے والے نوجوان کی۔جیسا کہ اُنکے ایک پروسی کا کہنا ہے”جب ایک دس بیس سال کا بے روزگار لڑکا،ذاتی مصرف کیلئے کار ، بائیکاور دیگر ہر سہولت رکھتا ہو تو آپ اُسکے گھر کی خوشحال اقتصادی حالت کا تصور تو کر ہی سکتے ہیں“۔خود شبیر کے بڑے بھائی نذیر احمد کہتے ہیںکہ جنگجو بننے سے قبل اُنکے چھوٹے کی زندگی اس حد تک آرام دہ اور پُر طعیش گذر رہی تھی کہ کوئی بھی نوجوان عش عش کر اُٹھے اور ایسی زندگی کی تمنا کرے۔وہ کہتے ہیں کہ والدین کی آخری اولاد ہونے کی وجہ سے شبیر کچھ زیادہ ہی لاڈ سے پلے تھے اور جوان ہونے پر بھی اُنکے لئے زندگی کا مطلب بس عیش کوشی تھا اور کچھ نہیں۔ نذیر احمد کہتے ہیں”وہ بس کرکٹ کھیلتا اور اپنی کار میں اِدھر اُدھر گھومتا رہتا،یہی دو چیزیں اُسے اچھی لگتی تھی اور گھر میں بھی کبھی اُسے کسی نے کام کرنے کیلئے نہیں کہا“۔وہ مزید کہتے ہیں”سب سے چھوٹا تھا نا اسلئے ہم نے اُسے کبھی یہ تک نہیں کہا کہ وہ (سیب کے)باغ میں جاکر دیکھ آئے یا کوئی کام کرے“۔
تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے شبیر 6مئی کو اچانک گھر سے نکل کر گویا کہیں غائب ہوگئے تھے ،اُنہوں نے گھر کے ساتھ کوئی رابطہ بھی نہیں کیا،کوئی پیغام بھی نہیں پہنچایا یہاں تک کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بُک پر فوجی وردی میں ملبوس کلاشنکوف اُٹھائے اُنکی تصاویر آکر چھا گئیں….یہ شبیر کے جنگجو بن جانے کا اعلان تھا۔گذشتہ دو ایک سال سے کشمیر میں نئے جنگجو بننے والے لڑکوں کا طریقہ ہی یہی ہے….گھر سے غائب ہوگئے اور پھر کچھ دن بعد نئے اوتار میں فیس بُک پر ظاہر ہوگئے۔
غم سے نڈھال میر خاندان کا کہنا ہے کہ اُنہیں خود فوج اور پولس نے شبیر کے جنگجو بن جانے کے بارے میں تب بتایا کہ جب اُنکے یہاں کیا دن کیا رات ….روز ہی چھاپے مارے جانے لگے۔نذیر احمد کے بقول”ہمارے یہاں روز چھاپے پڑنے لگے اور اسی دوران فوج اور پولس نے ہمیں شبیر کے جنگجو بن جانے کے بارے میں بتایا“۔میر خاندان کے ساتھ ساتھ مہند کا سارا گاوں بلکہ شبیر کی خوشحال اور پُر طعیش زندگی سے واقف سببھی اپنے پرائے شبیر کے کرکٹ بیٹ چھوڑ کر بندوق تھامنے سے گویا سکتے میں آگئے تھے۔اُنکا سکتے میں آنا بے وجہ تھا بھی نہیں….!!!۔شبیر کے ایک دوست کہتے ہیں”اُسکے پاس تو وہ سب کچھ تھا کہ جسکا ہم فقط خواب ہی دیکھ سکتے ہیں،میں ایک چیز یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کوئی اس قدر شاندار زندگی چھوڑ کے دور جنگلوں اور بیابانوں میں حالات کے رحم و کرم پر جینے کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے“۔
”ٹائیگر سپورٹس کلب“کے کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ ”میکسویل“کے جانے سے گویا اُنکے حصے میں ایک دائمی ہار آگئی ہے۔کلب کے کئی کھلاڑیوں نے انکشاف کیا کہ میکسویل کے رہتے ہوئے ہمیشہ جیتتا آرہا یہ کلب فقط ہارتا ہی جارہا ہے۔
شبیر کے غم میں نڈھال اُنکے دوستوں اور ”ٹائیگر سپورٹس کلب“میں اُنکے ساتھ کھیلتے رہے اُنکے ساتھی کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ اُنکے دوست کی زندگی میں ”بھارتی میڈیا“کے اس”پروپیگنڈہ“ کا،کہ کشمیری نوجوان پیسے کیلئے سنگبازی کرتے ہیں، وضاحت کے ساتھ جواب پوشیدہ ہے ۔اُنکے ایک دوست کا کہنا ہے”وہ تو ایک انتہائی نرم رو شخص تھااور ساتھ ہی بڑا دلداربھی،کیا کوئی شخص جو دن میں دو یا تین ہزار روپے خرچ کرتا رہا ہو پانچ سو روپے کیلئے سنگبازی کرسکتا ہے جیسا کہ بھارتی میڈیا کا الزام ہے“۔وہ کہتے ہیں کہ کاش اس طرح کا پروپیگنڈہ کرنے والوں نے شبیر کے جنگجو بننے سے پہلے کی زندگی دیکھتی ہوتی تو اُنہیں اس طرح کی باتیں کرتے ہوئے لازماََ شرم محسوس ہوجاتی۔
شبیر کے بھائی نذیر احمد کہتے ہیں کہ اگرچہ شبیر پہلے سے شریف الطبع شخص رہے ہیں تاہم حزب کمانڈر بُرہان وانی کے مارے جانے کے بعد لڑکے میں واضح بدلاو آیا تھا۔ نذیر احمد کہتے ہیں”مذہب کی طرف اُسکا پہلے سے میلان تو تھا لیکن بُرہان صاحب کے مارے جانے کے بعد وہ اور بھی زیادہ مذہبی ہوگیا تھا،اب اُسے نمازوں اور دیگر عبادات کی بڑی فکر لاحق رہتی تھی“۔اُنہوں نے کہا کہ اگرچہ اُنہیں کبھی ایسا نہیں لگا کہ شبیر جنگجو بننے کے جیسا انتہائی قدم بھی اُٹھا سکتے ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ اُنہوں نے دوبار اُنکا رشتہ ہوتے ہوتے رکوادیا۔وہ کہتے ہیں کہ شبیر کے جنگجو بننے کے بعد اُنہیں اندازہ ہوا کہ وہ اپنا رشتہ کیوں نہیں کرنے دے رہے تھے کہ در اصل اُنکے دماغ میں پہلے سے منصوبہ بندی چلتی رہی ہے۔نذیر احمد کہتے ہیں”جب اُس نے پہلی لڑکی کو رد کردیا تو ہمیں لگا کہ اُسے لڑکی پسند نہیں آئی ہے لیکن جب اُس نے دوسری لڑکی کیلئے بھی منع کیا تو میں نے اُسے ڈانٹنا چاہا جسکے جواب میں اُس نے یہ کہکر ہمیں ششدر کردیا کہ وہ ایسے میں کیا شادی رچائیں گے کہ جب آس پاس اتنے بے گناہ اور معصوم (سرکاری فورسز کے ہاتھوں) مارے جارہے ہوں“۔
شبیر کے لواحقین کا کہنا ہے کہ ٹہب میں اتوار کے روز فقط شبیر نہیں مرے ہیں بلکہ اپنے بیٹے سے اُنکے کئی ارمان بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مر چکے ہیں۔لیکن فقط میر خاندان ہیں نہیں ہے کہ جسکے ارمان مٹ چکے ہیں بلکہ ”ٹائیگر سپورٹس کلب“کے کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ ”میکسویل“کے جانے سے گویا کلب کے موجودہ کپٹن مدثر کہتے ہیں کہ شبیر جیسے جانے سے پہلے بھرپور زندگی جینا چاہتے تھے اور سبھی ارمان پورا کرنا چاہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں ’’وہ مجھے ایک کے بعد ایک میچ کروانے کیلئے کہتا رہا ایسا لگتا ہے کہ وہ بہت جلدی میں تھا اور جتنا ہوسکے اُتنے میچ کھیلنا چاہتا تھا،اُسکے جانے کے بعد ہم بس ہارتے ہی جاتے ہیں اور میدان پر ہم اُسکی شدت سے کمی محسوس کرتے ہیں“۔کلب کے دیگر کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ اُنکے حصے میں ایک دائمی ہار آگئی ہے۔ کھلاڑیوں نے تصدیق کی کہ میکسویل کے رہتے ہوئے ہمیشہ جیتتا آرہا یہ کلب فقط ہارتا ہی جارہا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ وہ میکسویل کے جانے کے بعدسے لگاتار یہ تمنا کرتے رہے ہیں کہ وہ واپس آکر پہلے کی طرح کھیلے اور اس کلب کا مقدر بن چکی ہار کو پھر سے جیت میں بدلے….لیکن اب یہ تمنا کبھی پورا نہ ہونے والی حسرت بن چکی ہے۔(بشکریہ کشمیر ریڈر)