کولگام// (محمد سہیل)
”قومی سطح“کے کرکٹر،وکیل بننے کو تیار اور ایک صاحبِ ثروت خاندان کے اکلوتے چشم و چِراغ شمس الوقار تیلی کے پاس وہ سب کچھ تھا کہ جسکی تمنا آج کل کے نوجوانوں کو رات بھر کروٹیں بدلتے رہنے پر مجبور کرتی ہے لیکن اُنہوں نے آرام کی زندگی اور جدید سہولیات کی بجائے ہاتھ میں بندوق تھام کر اپنے لئے سخت زندگی کا انتخاب کیا۔ظاہر ہے کہ 17سالے کے شمس کے اس انتخاب پر اُنکے آبائی گاوں گنجی پورہ میں ہر شخص حیران اور ہر نفس انگشت بدندان ہے،خود تیلی خاندان گویا سکتے میں ہے اور یہ سمجھنے سے قاصر کہ شمس نے جنگجو بننے کا فیصلہ کیا تو کیوں کیا۔
محمد امین کی تین اولاد میں سے شمس سب سے چھوٹے اور اکلوتے بیٹے ہیں۔امین نے قدرت نے خوب نوازا ہے اور اُنہوں نے اپنی حیثیت کے مطابق ہی شمس کو اسلام آباد کے بہترین اسکولوں میں پڑھایا۔ساتویں تک یہاں کے اقبال میموریل انسٹیچیوٹ میں پڑھنے کے بعد یہاں کے پڑوسی قصبہ سنگم میں دلی پبلک اسکول (ڈی پی ایس)کی شاخ کھل گئی تو محمد امین نے شمس کا یہاں داخلہ کرایا
ابھی چند ہی دن ہوئے کہ جب شمس الوقار نے سبھی آرام دہ چیزوں اور قابلِ رشک لڑکپن کی تمناوں کو خیر باد کہتے ہوئے 7مئی کو گھر چھوڑ کر نہ جانے کہاں کی راہ لی اور پھر فوجی وردی میں ملبوث ہاتھوں میں بندوق اُٹھائے اُنکی تصویر سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر گویا وائرل ہوگئی۔یہ تصویر فیس بُک پر کیا آئی کہ شمس کے ”غائب“ہونے کی گتھی سلجھ گئی ۔تاہم شمس کے گھروالے سکتے میں ہیں اور اُنکے مطابق یہ فیصؒہ کرنے سے بھی قاصر کہ اپنے بچے کی تلاش چھوڑ دیں یا اُمیدوں کو زندہ رکھتے ہوئے شمس کو زندہ واپس لانے کی کوششیں جاری رکھیں۔جیسا کہ نم آنکھوں کے ساتھ شمس کے والد محمد امین تیلی کہتے ہیں”ہمکچھ بھی سمجھ نہیں پا رہے ہیں،ہمیں نہیں معلوم کہ اُسے کہاں ڈھونڈیں،ہم تو یہ تک بھی نہیں جانتے ہیں کہ ہمیں اُسکی تلاش چھوڑ دینی چاہیئے یا نہیں“۔
محمد امین کی تین اولاد میں سے شمس سب سے چھوٹے اور اکلوتے بیٹے ہیں۔امین نے قدرت نے خوب نوازا ہے اور اُنہوں نے اپنی حیثیت کے مطابق ہی شمس کو اسلام آباد کے بہترین اسکولوں میں پڑھایا۔ساتویں تک یہاں کے اقبال میموریل انسٹیچیوٹ میں پڑھنے کے بعد یہاں کے پڑوسی قصبہ سنگم میں دلی پبلک اسکول (ڈی پی ایس)کی شاخ کھل گئی تو محمد امین نے شمس کا یہاں داخلہ کرایاجہاں سے اُنہوں نے دسویں کا امتحان پاس کیا۔محمد امین کہتے ہیں”وہ کتابی کیڑا تو نہیں تھا لیکن بڑا ذہین تھا سو اُس نے دسویں کا امتحان اچھے نمبروں کے ساتھ پاس کیا،وہ بہت اچھا کھلاڑی بھی تھا“۔چناچہ امین کے دعویٰ میں یہ بڑا ثبوت ہے کہ شمس نے انڈر14اور انڈر16کی قومی ٹیموں میں شامل رہتے کرکٹ میں ریاست کی نمائندگی کی ہے جبکہ وہ مساوی طور والی بال کے بھی بہت اچھے کھلاڑی تھے۔
”وہ بہت خوش لگ رہا تھا،حالانکہ اُسکی اصل خواہش چارٹرڈ اکاونٹنٹ بننے کی تھی۔میرے تو کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں آیا تھا کہ اُسکے دماغ میں کیا کچھ چل رہا ہے“۔
بارہویں کا امتحان شمس نے73فیصد نمبرات سے پاس کیا اور وہسنٹرل یونیورسٹی میں بی اے-ایل ایل بی کے پانچ سال پر محیط کورس کے لئے منتخب ہوگئے۔یونیورسٹی میں داخلے کے لوازمات پورا کرنے کے لئے شمس اپنے والد کی معیت میں یونیورسٹی(نوگام سرینگر)گئے اور لوازمات پورا کر آئے۔حیرانگی کی بات ہے کہ یہ اُنکے گھر سے غائب ہونے کے فقط چند روز پہلے کی بات ہے۔جیسا کہ محمد امین کہتے ہیں”وہ بہت خوش لگ رہا تھا،حالانکہ اُسکی اصل خواہش چارٹرڈ اکاونٹنٹ بننے کی تھی۔میرے تو کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں آیا تھا کہ اُسکے دماغ میں کیا کچھ چل رہا ہے“۔
شمس کے سکتے میں آچکے گھروالے کہتے ہیں کہ گھر سے جانے کے ایک دن قبل6مئی کو شمس گاوں کے دیگر لڑکوں کے ساتھ میربازار کی اُس جگہ پر گئے تھے کہ جہاں کچھ دن پہلے جنگجووں نے حملہ کیا تھا۔یاد رہے کہ اس حملے میں ایک جنگجو،ایک پولس اہلکار اور تین عام شہری مارے گئے تھے۔اگلی صبح کو شمس نے پاس کے ریڈونی قصبہ کی راہ لی اور وہاں میربازار حملے میں مارے گئے جنگجو کے جلوسِ جنازہ میں دیگر ہزاروں لوگوں کے ساتھ شرکت کی۔اُنہوں نے شام گئے گھر فون کرکے بتایا کہ وہ جلس ہی گھر آئیں گے لیکن ابھی تک نہ آئے۔یہ تب سے ہی ہے کہ تیلی خاندان کے لوگ اپنے لال کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں لیکن جب سے شمس کی فوجی وردی میں ملبوس ہوکر تصویر سامنے آئی ہے،وہ سمجھ بھی نہیں پارہے ہیں کہ رُکیں یا انجان راہوں پر بس چلتے ہیں رہیں۔محمد امین کہتے ہیں”اُسکی ماں تو پاگل ہوگئی ہے جبکہ اُسکی دونوں بہنیں درد سے تڑپ رہی ہیں،ہم یقیناََ اپنے بچے کو واپس پانا چاہتے ہیں لیکن فیصبہ بہر حال اُسکا ہے سو اُس نے لیا ہے“۔
”وہ تو ہمارا اکلوتا بیٹا ہے،اُسکی ماں اور میں اُسکی راہ دیکھ رہے ہیں،ہم اُسے گھر واپس لوٹتے دیکھنا چاہتے ہیں“
اچانک ہی جنگجو بننے کا فیصلہ لے چکے دیگر کئی بچوں کے برعکس تاہم محمد امین کا کہنا ہے کہ شمس کا دِل اچانک نہیں بدلا ۔وہ کہتے ہیں کہ اُنکے بیٹے ہمیشہ ہی ”بھارت مخالف اور آزادی حامی“ریلیوں میں شامل ہوتے آئے ہیںجبکہ اُنہیں کئی بار گرفتار تک کیا جاچکا ہے۔شمس ہی کیا خود محمد امین کو بھی کم از کم 15دن حراست میں رہنا پڑا تھا تاکہ شمس مجبور ہوکر خود کو پولس کے حوالے کریں۔محمد امین کہتے ہیں کہ اُس دن کے بعد سے شمس کبھی گھر نہیں سوئے ہیں۔امین نے ایک اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ اُنکے بیٹے نے اس سے قبل بھی جنگجووں سے رابطہ کرکے اُنکے ساتھ ہولینے کی کوشش کی تھی لیکن اُنہوں نے یہ کہکر اُنہیں لوٹایا تھا کہ وہ والدین کی اکلوتی نرینہ اولاد ہیں۔محمد امین کے مطابق یہ بات خود اُنکے بیٹے نے اُنسے کہی تھی۔وہ کہتے ہیں”اُس(شمس)نے تو خود مجھے کہا تھا کہ جنگجووں نے اُسے اپنے ساتھ لینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کیا تھا کہ وہوالدین کے اکلوتے بیٹے ہیں،مجھے نہیں معلوم کہ اب کے اُنہوں نے اُسے کیونکر قبول کرلیا“۔
شمس الوقار کے والد کہتے ہیں کہ اُنہیں اس بات کی سمجھ ہے کہ اُنکے بیٹے نے ایک ”جائز مقصد“کے لئے یہ مشکل راستہ چُنا ہے لیکن وہ کہتے ہیں”وہ تو ہمارا اکلوتا بیٹا ہے،اُسکی ماں اور میں اُسکی راہ دیکھ رہے ہیں،ہم اُسے گھر واپس لوٹتے دیکھنا چاہتے ہیں“۔تیلی خاندان کے ساتھ اس ملاقات کے دوران آس پڑوس کی کئی خواتین بھی موجود تھیں جنہوں نے کہا ”شمس تو گاوں کا سب سے نیک ترین بچہ تھا“۔ (بشکریہ کشمیر ریڈر)