سرینگر// یوں تو وہ مشکلات ،مصائب،بد نصیبیوں اور آفتوں سے غیر مانوس نہیں تھے تاہم اب کی بار آئی مصیبت نے تو بچے کی جان ہی لے لی۔جس خوفناک اور دل دہلادینے والے انداز میں سی آر پی ایف کی ایک برق رفتارگاڑی نے قیصر امین اور مزید دو نوجوانوں کو کچل دیا اس سے” ٹی آرپی “کو انسانیت سے بڑھکر مان کر چل رہے ٹیلی ویژن اینکروں اور نام نہاد قومی مفاد میں اندھے ہوچکے جنونیوں کو چھوڑ کر ہر صاحبِ دل سکتے میں تو ہے ہی لیکن خود قیصر کی مختصر زندگی کی کہانی بھی کچھ کم رلادینے والی نہیں ہے۔
اپنے والد کی پہلی اور واحد نرینہ اولاد کے بطور قیصر گھر کے لاڈلے ہی نہیں تھے بلکہ جیسے شہزادے ہوں….اپنی بساط کے مطابق انکے کشمیری دستکاریوں کے بیوپاری والد اپنے بچے کیلئے آسمان سے تارے توڑ لے آنے کی جستجو میں رہتے تھے اور ….ماں ….انکی تو پوری دنیا ہی قیصر کے گرد گھومتی تھی۔لیکن اس انگریزی کہاوت کے مصداق کہ قسمت ایک پہیئے کی طرح گھومتی ہے،قیصر کی قسمت کا پہیہ لیکن کچھ زیادہ ہی تیزی سے گھومنا شروع ہوگیا وہ بھی تب کہ جب انکے منھ سے شیرِ مادر کی خوشبو بھی نہیں چھُوٹی تھی۔
21سالہ قیصر امین فطرتاََ ڈاون ٹاون کے کسی بھی بچے کی طرح شوخ مزاج ،کھیل کود ،گاڑی ،بائیک،موبائل اور اس طرح کی چیزوں کے رسیا تھے لیکن حالات نے گویا انکی شوخیاں دھندلی کی ہوئی تھیں۔انکے دوستوں کی مانیں تو کچھ دنوں سے زندگی سے بیزار سے تھے اور اپنی فوری موت کی پیش گوئی کرتے آرہے تھے جو بد قسمتی سے کسی ماہر نجومی کی کہی ہوئی بات کی طرح سچ ثابت ہوئی۔
اپنے والد کی پہلی اور واحد نرینہ اولاد کے بطور قیصر گھر کے لاڈلے ہی نہیں تھے بلکہ جیسے شہزادے ہوں….اپنی بساط کے مطابق انکے کشمیری دستکاریوں کے بیوپاری والد اپنے بچے کیلئے آسمان سے تارے توڑ لے آنے کی جستجو میں رہتے تھے اور ….ماں ….انکی تو پوری دنیا ہی قیصر کے گرد گھومتی تھی۔لیکن اس انگریزی کہاوت کے مصداق کہ قسمت ایک پہیئے کی طرح گھومتی ہے،قیصر کی قسمت کا پہیہ لیکن کچھ زیادہ ہی تیزی سے گھومنا شروع ہوگیا وہ بھی تب کہ جب انکے منھ سے شیرِ مادر کی خوشبو بھی نہیں چھُوٹی تھی۔دو چھوٹی بہنوں کے بھیا ،قیصر ابھی گیارہ سال ہی کے تھے کہ انکی امی زیابطیس کے مرض کا اس حد تک شکار ہوگئیں کہ اپنے شہزادے کو بڑھا ہوتے دیکھنے کیلئے زندہ نہ رہ سکیں۔2008میں قیصر کی قسمت کا یہ پہلا مگر آخری بُرا چکر نہیں تھا بلکہ گویا یہ مصیبتوں کی شروعات تھی۔بصورتِ دیگر انکا خوشحال گھرانہ ماں کے مرنے کے ساتھ ہی مایوسیوں میں ڈوبنے لگا اورپھر فقط تین ماہ بعد تب قیصراور، ان سے بالترتیب دو اور چار سال چھوٹی،انکی بہنوں پر آسمان ٹوٹ پڑا کہ جب انکے والد بھی انہیں داغِ مفارقت دے کر چھوڑ گئے۔اپنی شریکِ حیات اور معصوم بچوں کی والدہ کے جواں مرگ ہونے نے انہیں اندر ہی اندر کھوکھلا کردیا تھا اور ایک دن حرکتِ قلب بند ہوجانے سے وہ چل بسے۔
والدین کے سائہ شفقت سے محروم تین بچے اتنے چھوٹے تھے کہ انکے لئے ان پر ٹوٹ پڑے آسمان کے بوجھ کا صحیح اندازہ لگانا بھی ممکن نہ تھا۔ان بد نصیب بچوں کی کفالت کا ذمہ انکے دادا کے سر آیا مگر بُری سمت میں انکی قسمت کا چکر تیزی کے ساتھ جاری رہا۔سال بھر بعد ہی دادا بھی اجل کے ہاتھوں مجبور ہوکر تینوں کو بے سہارا چھوڑ گئے۔جیسے کسی شاعر نے ان بچوں کیلئے ہی کہا ہو
دلِ انسان پہ حوادث کی چوٹیں توبہ
پھول کے سینے پہ توڑے گئے پتھر کتنے
سوگوار خاندان کا کہنا ہے کہ دادا کے مرجانے پر تینوں بہن بھائی عملاََ بے سہارا ہوگئے تاہم اس دوران انکی پھوپھی کی اکلوتی لڑکی مرگئی تھیں ۔ایک طرف انکے پھوپھا غلام محمد نجار اور پھوپھی اپنی بیٹی کھوکر خالی خالی محسوس کر رہے تھے تو دوسری جانب قیصر اور انکی بہنیں بے سہارا….رشتہ داروں کے مشورے سے نجار نے تینوں بچوں کو گود لیکر اپنے یہاں بچھوارہ ڈلگیٹ منتقل کردیا۔ایسے میں ایک طرف قیصر اور انکی ننھی بہنوں کو سہارا تو مل گیا تاہم ان سے انکا گھر آنگن چھوٹ گیا کہ جہاں کے ساتھ انکی اچھی بُری یادیں وابستہ تھیں۔جیسا کہ قیصر کے فورسز کے گاڑی کے نیچے کچل کر دردناک انداز میں قتل کئے جانے کے غم سے نڈھال نجار کہتے ہیں کہ قیصر کا دل انکے اپنے گھر میں ہی تھا اور وہ نہ صرف تقریباََ روزانہ وہاں جاکر اپنے دوست احباب سے ملتے رہے بلکہ ڈاون ٹاون کے باقی لوگوں کی طرح وہ بھی نمازِ جمعہ کیلئے ترجیحی طور تاریخی جامع مسجد میں جاتے رہے۔چناچہ گذشتہ جمعہ کو بھی وہ تب جامع میں ہی تھے کہ جب احتجاجی مظاہرین پر ٹوٹ پڑنے کے دوران سرکاری فورسز نے خود مسجد کے اندر بھی شلنگ کی اور کئی روزہ دار نمازیوں کو لہو لہاں کردیا۔مسجد میں گرے خون کے دھبے دھوتے ہوئے قیصر کی تصاویر انٹرنیٹ پر وائرل ہیں حالانکہ اس واقعہ کے محض ہفتہ بعد وہ خود فورسز کی طاقت کا شکار ہوکر انتہائی بے دردی کے ساتھ مارے گئے۔

گذشتہ جمع کو جامع میں خون کے دھبے دھوتے ہوئے قیصر
واضح رہے کہ گذشتہ جمعہ کو جامع کی بے حرمتی کے خلاف ہی اب کے جمعہ کو یہاں پُرامن احتجاج ہورہا تھا کہ جب اچانک ہی فورسز کی ایک جپسی اچانک برق رفتاری کے ساتھ ہجوم میں آگھس کر اسے مشتعل کر بیٹھی۔مجروح جذبات والے لوگوں کو طیش ملا اور انہوں نے ،انتظامیہ کے اس اعلان کے برعکس کہ اب کی بار نماز جمعہ کے دوران فورسز کو مسجد سے دور رکھا جائے گا،غیر ضروری طور آگے آنے والی اس گاڑی پر پتھراو شروع کیا۔فورسز کی گاڑی انسانی جانوں کی پرواہ کئے بغیر عملاََ انہیں روندھتے،کچلتے آگے بڑھی اور یوں قیصر سمیت تین نوجوان اس بے دردی کے ساتھ کچلے گئے کہ دیکھنے والے اس منظر کا تصور کرکے زندگی بھر کانپتے رہیں گے۔حالانکہ انہیں اسپتال لیجایا گیا لیکن قیصر نے چند ہی گھنٹوں کے اندر دم توڑ دیا۔
قیصر کے دوستوں کا کہنا ہے کہ اپنے گھر پر آئی ایک کے بعد ایک آفتوں نے انکے دوست کو تڑپایا ہی تھا لیکن 2016میں انکے بچپن کے دوست عرفان کو فورسز نے جاں بحق کیا تو قیصر گویا پوری طرح ٹوٹ چکے۔انکے ایک دوست کا کہنا ہے”اس واقعہ نے قیصر کو بہت حد تک بدل دیا اور سنجیدہ کردیا،وہ آزادی کا متوالا ہوگیا تھا ۔جہاں کہیں کوئی لڑکا شہید ہوجاتا قیصر کو خبر ہوجاتی تو وہ جلوسِ جنازہ میں ضرور پہنچ جاتا اور آزادی کو کشمیریوں کی سب سے بڑی ضرورت سمجھتا تھا“۔انکے ایک اور دوست کا کہنا ہے”اسکا تو یہ تکیہ کلام ہی بن گیا تھا کہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت اچھی ہے“۔وہ کہتے ہیں کہ انکے دوست بڑے خوددار تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بارہویں جماعت سے آگے نہ پڑھنے کا فیصلہ لیا تاکہ وہ اور انکی بہنیں اپنے پھوپھا پر بوجھ نہ بنیں جو ایک اسکول میں ملازم ہیں۔
غلام محمد نجار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ قیصر آزادی کے زبردست متوالے تھے اور اس حوالے سے بڑے جذباتی تھے تاہم انہوں نے کبھی سنگ بازی میں حصہ نہیں لیا جسکا ثبوت یہ ہے کہ انکے خلاف پولس میں کوئی معاملہ بھی درج نہیں ہے۔انکے ایک رشتہ دار نے نجار کی دعویداری کے ثبوت میں کہا”اگر وہ کبھی سنگ بازی میں ملوث رہا ہوتا تو اسے پاسپورٹ کہاں ملتاجسکے لئے پولس اور دیگر نہ جانے کتنی ایجنسیاں ویری فکیشن کرتی ہیں“۔قیصر کو اپنے حقیقی بیٹے کی طرح پالتے آرہے نجار کہتے ہیں”وہ بڑا نیک اور خدا پرست بچہ تھا“۔نم آنکھوں کے ساتھ وہ انتہائی دردبھری آواز میں کہتے ہیں”وہ روزے سے تھا کہ جب اسے انتہائی بے رحمی کے ساتھ کچلا گیا،ہمارا تو سب کچھ ختم ہوگیا،سب برباد ہوگیا“۔قیصر کے آخری بار گھر سے نکلنے کو یاد کرتے ہوئے نجار کہتے ہیں”اس نے تو میری بیوی،جسے یہ تینوں بچے موج(ماں)کہکر پکارتے ہیں،کو بھی ساتھ چلنے کیلئے کہا تھا ،وہ جاتی بھی لیکن قیصر نے شرط رکھی تھی کہ وہ عصر تک مسجد میں ہی رہیں گے،یہ سوچ کر کہ وہ عصر تک مسجد میں بیٹھے بیٹھے کیا کرینگی،میری بیوی نہ گئیں اور وہ اکیلا چلا گیا“۔انتہائی نا امیدی کے ساتھ انہوں نے کہا”مجھے فکر ہے کہ اب اسکی دو بہنوں کا کیا ہوگا“۔

کچھ کلیاں ادھ کھلی رہ جاتی ہیں!
دو بد نصیب بہنیں،طیبہ(19)اور عفت(17)دونوں نیم بے ہوش پڑی ہیں اور انہیں حوصلہ دینے کیلئے آنے والی خواتین انکا حال دیکھ کر خود ٹوٹ جاتی ہیں۔پُرسہ دینے کیلئے آنے والی خواتین کہتی ہیں”انہیں کون اور کس طرح حوصلہ دے سکے،کس چیز کی امید دلائی جاسکے،انکی تو ساری دنیا اجاڑ دی گئی ہے“۔جذبات پر قابو نہ کرپانے والی کئی خواتین قدرت کی جانب شکایت بھرے لہجے میں کہتی ہیں کہ آخر ان معصوموں پر غم کے اتنے پہاڑ کیوں تاہم سوگواروں میں ہی موجود سنجیدہ خواتین صبر کی تلقین کرتے ہوئے قدرت کے فیصلوں کے سامنے سرخم کو واحد طریقہ بتاتے ہوئے دونوں بد نصیب لڑکیوں کو صبر کی تلقین کرتی ہیں جسکے وہ شائد ابھی معنیٰ بھی نہیں سمجھ پارہی ہونگی۔
گوکہ قیصر کے دوستوں کے مطابق وہ کچھ وقت سے اپنے دوست کو بد دل سا ہوا دیکھتے آرہے تھے جو اپنے فوری مرجانے کی پیش گوئیاں کرتے آرہے تھے۔تاہم قیصر نے ہار نہیں مانی تھی۔چناچہ انہوں نے متحدہ عرب امارات کی ایک کمپنی میں نوکری کیلئے درخواست دی ہوئی تھی اور آنکھوں میں اپنے اور اپنی بہنوں کیلئے خوشیوں کے خواب سجائے وہ چمک دھمک کی ایک نئی دنیا میں جانے کیلئے ویزا ملنے کے انتظار میں تھے۔انکے رشتہ داروں کا کہنا ہے ”وہ ویزا کا انتظار کررہا تھا اور ممکنہ طور ہفتے بھر میں اسکا ویزا آنے والا تھا“۔ہوسکتا ہے ویزا آبھی جائے لیکن اسے لینے والا اب کوئی نہیں ہوگا….کوئی نہیں!
یہ بھی پڑھئیں