بانڈی پورہ// شام ڈھلنے کے بعد اب رات ہورہی تھی اور لوگ گھروں کو لوٹ رہے تھے….اور میں شمالی کشمیرمیں شاہ گنڈ گاوں کے اپنے گھر کے باہر تنہا سگریٹ کے کش لے رہا تھا۔نہ جانے کن خوابوؓ،خیالوں میں گھم تھا کہ اچانک ہی میں نے لمبی داڑھے والے دو لوگوں کو میری طرف آتے دیکھا۔اُنہیں اپنے سامنے کھڑا ہوتے دیکھ کرمیں ڈر گیا….میری اُنگلیوں میں بند سگریٹ پر میری گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور وہ نیچے گر گئی۔
میں نے دیکھا کہ دونوں کے کاندھوں سے اے کے47رائفلیں لٹک رہی تھیں اور وہ تھکے تھکے سے اور بھوک سے نڈھال لگ رہے تھے۔اُنہوں نے بے تکلفی کے ساتھ اور تحمل کے بغیر کہا ،کھانا دلاوگے کیا؟….وہ شائد فاقہ تھے۔اُنکے پاس بندوقیں تھیں اور میرے پاس جُرا¿ت کی کمی ….میں اُنہیں منع کرنے کی ہمت نہ جُتا پایا۔حالانکہ میں جانتا تھا کہ کسی جنگجو کو جگہ دینے کا مطلب کیا ہو سکتا ہے،اسکا ایک مطلب بڑی محنت سے بنائے ہوئے گھر کو چُٹکیوں میں ملبے کا ڈھیر کردینا بھی تو ہوسکتا ہے….جیسا کہ ہم اُن مکانوں کے ساتھ ہوتے دیکھ رہے ہیں کہ جہاں جنگجووں کو گھیرلیا جاتا ہے۔
وہ لوگ جب میرے ساتھ اس کمرے میں داخل ہوئے تھے،میں مخمصے میں پڑ گیا تھا کہ اپنے گھر والوں کو ان خطرناک مہمانوں کے بارے میں بتاوں بھی کہ نہیں….لیکن مجھے اُنہیں بتانا ہی پڑا۔
میں دونوں کو سیدھا اپنے گھر کی طرف لے گیا جو ان لوگوں سے میری ملاقات ہونے کی جگہ سے محض دس پندرہ قدم کی دوری پر ہے۔تھکے ہوئے تھے وہ…. شائد اسی لئے اُنہوں نے رات یہاں رُکنا چاہا اور ….میں ….مرتا کیا نہ کرتا….آمادہ ہوگیا۔میں اُنہیں اپنے کمرے میں لے گیا تھا کہ جہاں میں پڑھتا رہا ہوں۔میرے کمرے،جسکی کھڑکیاں ابھی تک شاذ ہی کبھی کھولی گئی ہونگی، کی صورتحال ویسے بھی فقط مجھے ہی راس آتی ہے۔یہاں وہاں بکھری پڑی کتابیں،کھولے ہوئے اخبار،اور جانے کیا کیا بے ڈھنگ طریقے سے فرش پر پڑے رہتے ہیں اور میں انہی سب چیزوں کے بیچ جگہ نکال کر بیٹھ جاتا ہوں۔ہم میں سے اکثر لوگوں کا اسٹیڈی روم شائد ایسا ہی ہوتا ہے۔میری پڑھائی کیلئے مخصوص یہ کمرہ….جہاں میرے بغیر کوئی گھُسنے کی ہمت بھی نہیں کرتا ہے….آج دو مسلح جنگجووں کی کمین گاہ بن چکا تھا۔حالانکہ میرے گھر والوں نے مجھے یہ کمرہ میری پڑھائی کیلئے دیا ہوا ہے،جنگجووں کو ٹھہرانے کیلئے ہر گز بھی نہیں۔
وہ لوگ جب میرے ساتھ اس کمرے میں داخل ہوئے تھے،میں مخمصے میں پڑ گیا تھا کہ اپنے گھر والوں کو ان خطرناک مہمانوں کے بارے میں بتاوں بھی کہ نہیں….لیکن مجھے اُنہیں بتانا ہی پڑا۔میری ماں نے اُنکے لئے کھانا بنانا شروع کیا اور وہ لوگ میرے کمرے میں بیٹھے ….اسلام اور جہاد پر بحث و مباحثہ کرنے لگے اور پھر وہ دھمی آواز میں قران کی تلاوت کرنے لگے….میں اپنے گھر کے ارد گرد پہریداری کرنے لگا۔
اُن لوگوں نے اپنی چھاتیوں سے بندے پوچ کھول دئے،اور اپنا سارا ہتھیار کمرے کے ایک کونے میں رکھ دیا….ہم ساری رات نہیں سوئے،جہاد کے بارے میں موضوع بدل بدل کر باتیں کرتے رہے ۔اس دوران مجھے اُنکے ہتھیار کے ساتھ یونہی چھیڑنے کا بھی خوب موقعہ ملا۔نہ جانے کیوں میں نے اے کے47کو اپنے کندھے پر سمجھانا چاہا اور ایک کو اُٹھا ہی لیا….ٹھیک ٹھاک بھاری ہوتی ہے یہ بندوق اور گرنیڈ کہلانے والا وہ ہتھ گولہ…. وہ تو خوفناک لگا مجھے….مجھے لگا کہ ہو نہ ہو اس پر ہاتھ پڑتا ہو اور یہ پھٹ جاتا ہو….!!!
میری ماں بھی بے چین ہو اُٹھی تھیں،وہ ہم سے ان مہمانوں کے بارے میں بات تک نہ کرنے کیلئے کہتی رہیں کہ جب تک وہ یہاں سے چلے نہ جائیں۔گھر کے باقی بچے وغیرہ بھی رات انہی دونوں کے ساتھ جُڑے رہے۔میں خود باورچی خانے میں کھانا لانے کیلئے گیا،جب تک اُنہوں نے ہاتھ صاف کر لئے،دسترکواں بچھایا اور بسم اللہ پڑھ کر اُنہوں نے لقمہ اُٹھانا شروع کیا۔
وہ دونوں ہی پاکستانی تھے۔کھانے سے فراغت ہوئی تومیری ماں نے ایک ماں ہی کی طرح اُنسے پوچھا کہ وہ پاکستان میں اپنا گھر بار چھوڑ کر کشمیر کیوں آگئے ہیں۔تاہم وہ دونوں اپنے مقصد میں واضح بھی تھے اور بے باک بھی….ہم اسلام کیلئے لڑ رہے ہیں،اُنہوں نے کہا۔اتنا ہی نہیں بلکہ اُنہوں نے ایک خطرناک راستے پر اپنے سفر کے بارے میں بڑی آسانی اور وضاحت کے ساتھ کہا”ہمارا واحد مقصد اسلام کی بالادستی کیلئے لڑنا ہے۔ہم آخرت کی زندگی پر یقین کرنے والے لوگ ہیں،مادیت کی ماری اس دُنیا کی زندگی تو عارضی ہے اور اصل زندگی تو اس دُنیا سے چلے جانے کے بعد شروع ہوجاتی ہے،لہٰذا ہم اپنی آخرت کو سدھارنے اور بہترین بنانے کی کوشش میں ہیں“۔اس سب کا کسی کے پاس جواب نہیں ہے سو میری ماں کے پاس بھی نہیں تھا لہٰذا اُنہوں نے اس سلسلے میں مزید تو نہیں پوچھا تاہم اسی سے متعلق ایک اور سوال کر بیٹھیں۔”آپ لوگ یہاں کیلئے نکلے تو آپ کے والدین نے کیا کہا“ماں نے پوچھا اور وہ دونوں پھر سے گویا ہوئے۔اُنہوں نے کہا”وہ(اُن کے والدین)ہم پر فخر کرتے ہیں۔ہم شہید ہاجاتے ہیں تو ہماری مائیں شہداءکی مائیں بننے پر فخر کرتی ہیں“۔
ہم اسلام کیلئے لڑ رہے ہیں،اُنہوں نے کہا۔اتنا ہی نہیں بلکہ اُنہوں نے ایک خطرناک راستے پر اپنے سفر کے بارے میں بڑی آسانی اور وضاحت کے ساتھ کہا”ہمارا واحد مقصد اسلام کی بالادستی کیلئے لڑنا ہے۔ہم آخرت کی زندگی پر یقین کرنے والے لوگ ہیں،مادیت کی ماری اس دُنیا کی زندگی تو عارضی ہے اور اصل زندگی تو اس دُنیا سے چلے جانے کے بعد شروع ہوجاتی ہے،لہٰذا ہم اپنی آخرت کو سدھارنے اور بہترین بنانے کی کوشش میں ہیں“۔
اس دوران میں نے اُنکے پاس موبائل فون بھی دیکھے اور چونکہ ہم بے تکلف ہوکر بیٹھے تھے….میں نے اُنکے فون کے ساتھ چھیڑنا شروع کیا،اُن لوگوں نے کوئی اعتراض نہ کیا یہاں تک کہ میں فون کی گیلری میں جا پہنچا جہاں میں نے جنگِ افغانستان کے کچھ جہادی ترانے پائے۔باتوں باتوں میں دو میں سے ایک نے بتایا کہ وہ کس طرح ابھی تک کئی بار فوج کا محاصرہ توڑ کر فرار ہوتے رہے ہیں۔اپنہوں نے خوب گپیں لڑائیں۔
وہ صبح بہت جلدی غسل کر آئے اور تہجد پڑھنے لگے۔وہ نماز میں تھے اور میں دیکھ رہا تھا کہ موٹے موٹے آنسو اُنکے رخساروں سے لڑھکتے ہوئے گر رہے تھے،وہ بڑی رقعت کے ساتھ اپنے لئے دعائیں کر رہے تھے ۔اُنکی حالت دیکھ کر لگ رہا تھا کہ اُنہوں نے عرصہ ہوئے کپڑے نہیں بدلے تھے اور یہ دیکھ کر ہم نے اُنہیں بدلنے کیلئے کپڑے دیدئے سو اُنہوں نے بد ل لئے۔تب تک نزدیک کی مسجد میں فجر کی اذان ہوگئی اور ہمارے مہمان رخصت ہونے کیلئے تیار تھے،نہ جانے کہاں کیلئے لیکن ہاں جاتے جاتے اُنہوں نے پھر آنے کا وعدہ کیا تاہم ایفائے عہد کو اُنہوں نے اللہ کی مرضی پر منحصر بتایا۔اُنہوں نے کہا کہ اللہ نے چاہا تو وہ ہمیں دیکھیں کیلئے پھر آئیں گے….!!!(بشکریہ نیوز ڈسپیچ ڈاٹ کام)
(سجاد گُل بارہمولہ ڈگری کالج میں صحافت کے طالبِ علم ہیں)
One Comment
Habib ch
ap ny kisi ko nahe btaya us wqt aur ab ap sab ko bta rhy hn. ab kia indian army koi action nahe lay ge???